آصف زرداری کی نگاہیں نگران حکومت پر مرکوز
ایک بار صدارتی عہدے پر پانچ سال کی مدت پوری کرنے والے آصف علی زرداری ایک بار پھر پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر منتخب ہو گئے ہیں جبکہ ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بن گئے۔ بلاول بھٹو یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک کے آئندہ صدر آصف زرداری اور وہ خود وزیراعظم ہوں گے تو شریف خاندان کی نیندیں اڑ جائیں گی۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے نئے عہدوں پر انتخاب سے بعض آئینی اور قانونی ابہام دور ہو گئے اور دونوں باپ بیٹے اب ایک انتخابی نشان سے الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ اس سے قبل یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ وہ ایک نشان سے الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ بلاول بھٹو اب پی پی پی پارلیمنٹیرین کے کارکن کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیں گے کیونکہ پیپلز پارٹی بدستور الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہے۔ انتخابی قوانین کے مطابق پارٹی کے اندر انتخاب کرانے والی غیر رجسٹرڈ جماعت الیکشن میں حصہ لینے کی اہل نہیں ہے۔ دونوں جماعتوں کا 4 سال کے لئے الیکشن ہوا ہے۔ بلاول بھٹو کو پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری ٹکٹ دیں گے۔ پیپلز پارٹی 2002ءمیں پارلیمنٹیرین کے نام سے رجسٹرڈ ہوئی تھی اور اس کے صدر مخدوم امین فہیم تھے بعدازاں پیپلز پارٹی کو رجسٹر کرانے کی کوششیں کی گئیں جبکہ ناہید خان نے بھی پیپلز پارٹی کو رجسٹر کرانا چاہا اور معاملہ عدالت میں چلا گیا۔ پیپلز پارٹی نے رجسٹریشن کی درخواست کے ساتھ تلوار کا انتخابی نشان مانگا ہے۔ پیپلز پارٹی اگر رجسٹرڈ بھی ہو جائے تو دو پارٹیوں کو ایک نشان الاٹ نہیں ہو سکتا اس لئے بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے پلیٹ فارم سے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تلوار کے انتخابی نشان سے الیکشن لڑا تھا بعد میں تلوار کا انتخابی نشان ختم کر دیا گیا‘ 1988ءمیں پیپلز پارٹی نے تیر کے نشان سے الیکشن لڑا‘ 2002ءمیں پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو تیر کا نشان الاٹ ہو گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے دونوں دھڑوں کے انتخابات اور اتحاد کے بعد شریک چیئرمین کا عہدہ ختم ہو گیا اس کے ساتھ آصف علی زرداری عملی سیاست میں آ گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کو این جی او قرار دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے دھڑوں کے حالیہ انتخابات سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی سیکرٹری مس ناہید خان کے سخت موقف کے باعث بلاول بھٹو کے انتخاب کو یقینی بنانے کے لئے کرائے گئے کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ پیپلز پارٹی ورکرز کراچی کے صدر ظفر رضوی کا دعویٰ ہے کہ بلاول بھٹو کا الیکشن متنازعہ ہے کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اب تک ناہید خان کی درخواست پر فیصلہ نہیں دیا۔ آئندہ سماعت 26 جنوری کو ہونا ہے۔ ناہید خان نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ پیپلز پارٹی کو کارکنوں کے حوالے کیا جائے انہوں نے درخواست کے ساتھ 4 ہزار کارکنوں کی فہرست بھی منسلک کی ہے۔ پیپلز پارٹی میں شریک چیئرمین کا عہدہ ایک طویل عرصے کے بعد ختم کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بلاول بھٹو سیاہ سفید کے مالک ہوں گے۔ چیئرمین شپ میں ان کا کوئی شریک نہیں ہو گا لیکن بلاول کی طنابیں آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہوں گی کیونکہ آصف علی زرداری کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو سیاسی طور پر پختہ نہیں ہیں جبکہ آصف علی زرداری نوازشریف کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کو خوب جانتے ہیں۔ آصف علی زرداری کی عقابی نگاہیں آئندہ نگراں حکومت کے قیام پر مرکوز ہیں کیونکہ نگراں حکومتوں کے ذریعے ہی دو جماعتی نظام کو دوام دیا جا سکتا ہے۔ 2013ءمیں پسندیدہ نگراں حکومت کے قیام کے لئے مسلم لیگ (ن) کے حق میں مثبت نتائج سامنے آئے تھے اب آصف علی زرداری چاہتے ہیں کہ نگراں حکومت پیپلز پارٹی کے لئے فائدہ مند کردار ادا کرے۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے پیپلز پارٹی کے دونوں دھڑوں کو ضم کرنے کی سفارش کی تھی جس کو آصف علی زرداری نے مسترد کر دیا۔ پارلیمنٹ میں جا کر آصف زرداری بیک وقت تحریک انصاف اور مسلم لیگ پر دباﺅ بڑھائیں گے اور دونوں جماعتیں ان کے ہدف پر ہوں گی۔ وہ وزیراعظم کو یاد دلائیں گے میثاق جمہوریت کے تحت اب پیپلز پارٹی کی باری ہے وہ تحریک انصاف کو مسلم لیگ (ن) کا متبادل بننے سے روکیں گے اور چاہیں گے کہ پیپلز پارٹی ہی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہے اور تحریک انصاف اس پوزیشن میں نہ آئے۔ 2013ءکے الیکشن کے بعد دونوں جماعتوں نے کامیابی کے ساتھ تحریک انصاف کو اپوزیشن بننے سے روک دیا تھا جس کا پھل 2018ءمیں ملے گا جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ مل کر نگرانوں کا انتخاب کریں گی جس کے لئے میر ہزار خان اور نجم سیٹھی جیسے نگراں حکمران رول ماڈل ہوں گے۔ آصف زرداری اس وقت عمران خان کا راستہ تو روکنا چاہتے ہیں لیکن وہ احتجاجی سیاست پر یقین نہیں رکھتے اور بلاول بھٹو کو تحریک چلانے سے باز رکھے ہوئے ہیں۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو جانے والی نہیں‘ آنے والی پارلیمنٹ کے لئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں وہ وزیراعظم سے کچھ معاملات طے کرنا چاہتے ہیں‘ پارلیمنٹ میں جانے کے بعد ان کی سودے کاری کی پوزیشن مستحکم ہو جائے گی۔ آصف علی زرداری اس وقت انجانے اندیشوں اور وسوسوں کا شکار ہیں‘ پارلیمنٹ میں آنے کے بعد ان کو پاکستان میں محفوظ راستہ اور بلاخوف و خطر سیاست کا لائسنس مل جائے گا۔ وزیراعظم نوازشریف کو بھی ان کے آنے سے سیاسی حمایت ملے گی‘ سیاستدانوں کا مورال بلند ہو گا اور جمہوریت کو میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے انتخابی مہم شروع کر دی ہے جس کے ساتھ لاڑکانہ کی قسمت جاگ گئی۔ بلاول بھٹو کے مقابلے میں تحریک انصاف‘ جمعیت علماءاسلام سمیت مختلف جماعتوں نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ جمعیت علماءاسلام نے امتیاز شیخ کے مقابلے میں بھی الیکشن لڑا تھا‘ سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پہلی بار الیکشن لڑنے والے بلاول بھٹو کا حلقہ مشکل اور آصف علی زرداری کا آسان ہے‘ ون ٹو ون مقابلہ ہوا تو اپوزیشن پیپلز پارٹی کو پریشان کر سکتی ہے کیونکہ 11 مئی 2013ءکے الیکشن میں ایاز سومرو آسانی سے جیت گئے تھے لیکن ان کے ووٹ مخالف امیدواروں کے ووٹوں سے کم تھے لیکن سب جانتے ہیں کہ اپوزیشن منتشر ہے تحریک انصاف اور جمعیت علماءاسلام میں انتخابی اتحاد نہیں ہو سکتا۔ دوسری جانب 11 مئی 2013ءکو نواب شاہ سے سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ عذرا پلیجو کی پوزیشن بہت مستحکم تھی۔ پیپلز پارٹی کے حلقے دوسری کہانی سناتے ہیں وہ کہتے ہیں پیپلز پارٹی فرینڈلی اپوزیشن سے حقیقی اپوزیشن کے سفر پر گامزن ہونا چاہتی ہے لیکن راہ میں کانٹے بچھے ہوئے ہیں‘ دھمکیاں بھی مل رہی ہیں تو دھونس دھاندلی سے کام لیا جا رہا ہے۔ 29 نومبر کے بعد حکمرانوں کے انداز اور تیور بدل گئے وہ حکومت کے خلاف مہم جوئی کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں پہلے حکومت نرم رویہ رکھتی تھی اب سخت ہو گیا ہے۔ مسلم لیگ اس وقت پیپلز پارٹی سے خوفزدہ ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے مسلم لیگ کی نیندیں اڑانے اور سڑکوں پر آنے کے اعلان سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے تعلقات میں ایک بار پھر تناﺅ پیدا ہو گیا ہے لیکن سیاسی حلقوں نے بلاول بھٹو کے اعلان کو خالی خولی دھمکی اور پیپلز پارٹی کی بقاءکی جنگ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لئے فرینڈلی اپوزیشن سے حقیقی اپوزیشن کا سفر کرنا بہت مشکل ہے ان حلقوں نے تین مراحل میں تحریک چلانے کے پلان کو بھی مسترد کر دیا اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے مطالبات کی ڈیڈ لائن میں ہر ماہ اضافہ کر دیتی ہے۔ عمران خان کو یوٹرن خان سمجھنے والے بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری 27 دسمبر سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں ناکام رہے اب انہوں نے ایک بار پھر پارلیمنٹ اور سڑکوں پر آنے کا اعلان کیا ہے اور کہاکہ جلد صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم بلاول بھٹو پارلیمنٹ اور سڑکوں پر ہوں گے۔ سیاسی حلقوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کا ہدف اب صرف سیاسی ساکھ بچانا‘ بھرم قائم رکھنا اور سندھ حکومت کے وسائل پر گلچھڑے اڑانا رہ گیا ہے۔ وہ وفاق کو دباﺅ میں رکھنا چاہتی ہے تاکہ وفاق سندھ حکومت پر بری نظر نہ ڈالے۔ پیپلز پارٹی کے نئے پلان کے تحت 2017ءکا سال تحریک کی تیاریوں کی نذر ہو جائے‘ تحریک کے لئے پی پی پی نے جو بلیو پرنٹ تیار کیا ہے اس کے تحت پہلے مرحلے میں 4 مطالبات منظور ہونے کا انتظار کیا جائے گا پھر پارلیمنٹ میں احتجاج ہو گا اور تیسرے مرحلے میں لانگ مارچ ہو گا جس کی شاید نوبت نہ آئے گی کیونکہ پیپلز پارٹی کو یقین ہے کہ 2017ءمیں نئے الیکشن ہو جائیں گے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات 2017ءمیں ہوں یا 2018ءمیں‘ کامیاب مسلم لیگ (ن) ہو گی‘ پیپلز پارٹی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی مزید سمٹے گی‘ سندھ اور کراچی میں پھیلے گی۔ اس بار جیالوں کی رال ایم کیو ایم کے مینڈیٹ پر ٹپک رہی ہے۔ صوبائی وزیر منظور وسان کو وزیراعظم نوازشریف کا مستقبل خطرے میں دکھائی دینے لگا ہے۔
ادھر ایس ایس پی راﺅ انوار نے چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلا وار ایم کیو ایم پر کیا اور میئر کراچی وسیم اختر کا نام انتہائی مطلوب ملزمان کی فہرست میں ڈالنے کے لئے وزارت داخلہ کو خط لکھ دیا۔ کچھ عرصہ قبل راﺅ انوار کو سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار کو گرفتار کرنے کی پاداش میں ہٹا دیا گیا تھا ان پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور آئی جی کو بائی پاس کرنے کا الزام تھا اس بار ان کی دوبارہ تعیناتی پر وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی منہ تکتے رہ گئے۔ باخبر حلقے کہتے ہیں کہ آئی جی نے بہت مزاحمت کی تھی۔ ایس ایس پی راﺅ انوار کی ایک بار پھر ملیر میں تعیناتی سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بن گئی اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ راﺅ انوار کو ہر بار ایس ایس پی ملیر کیوں لگایا جاتا ہے؟