پانامہ لیکس سکینڈل ڈراپ سین کی جانب گامزن
پانامہ لیکس سکینڈل ڈراپ سین کی طرف بڑھ رہا ہے، عدالت میں قانونی جنگ اور الیکٹرانک میڈیا پر سیاسی جنگ جوبن پر ہے۔ تحریک انصاف بہرحال اپنے مقصد میں کامیاب دکھائی دیتی ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد انتخابی مہم میں کرپشن کے خاتمے کا ایجنڈا لے کر جایا جائے۔ موجودہ اپوزیشن جماعتوں میں اُن کی رقیب اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی اپنی صفوں کو درست کرنے میں مسلسل مصروف ہے۔ باپ بیٹا پیپلزپارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے الگ الگ سربراہ بن گئے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا انتخابی نشا ن دو تلواریں اور پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کا انتخابی نشان تیر ہے۔ اعلان سامنے آیا ہے کہ باپ بیٹے کی جماعتوں نے انتخابی اتحاد کر لیا ہے اور ساتھ ہی بتایا گیا ہے کہ دونوں ایک ہی انتخابی نشان پر الیکشن لڑیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری والی پیپلزپارٹی کا دو تلواریں، بے نظیر بھٹو والی پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کا تیر یا ذوالفقار علی بھٹو والی پیپلزپارٹی کی تلوار آصف زرداری سے پیپلزپارٹی کے سابقین فیصل صالح حیات اور خالد احمد خان کھرل کی ملاقات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں پیپلزپارٹی کا حصہ رہنے والے وہ رہنما جنہیں مسلم لیگ (ن) میں جگہ نہیں ملی، پیپلزپارٹی میں واپسی ہی میں عافیت محسوس کرتے ہوئے واپس لوٹ جائیں گے۔ عام توقع ہے کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بھی صبح کے بھولوںکو شام گھر لوٹنے پر گلے سے لگا لیں گے یوں پیپلزپارٹی پنجاب میں قابل ذکر جماعت بن جائے گی۔ البتہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے امتحان ہو گا کہ وہ بوری کا منہ بند رکھ پاتے ہیں کہ نہیں۔
2017ءمرکز، سندھ، پنجاب، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کی حکومتوں کے لئے امتحان کا سال ہو گا۔ ان تمام نے برسراقتدار آنے کے بعد اپنی اپنی جماعتوں کے انتخابی منشور پر عمل کے لئے جو اقدامات شروع کئے تھے اس برس اُن کے نتائج آنے چاہئیں تاکہ عوام آئندہ عام انتخابات میں ووٹ دینے کے لئے ذہن بناتے وقت ان نتائج سے متاثر ہو کر فیصلہ کر سکیں ۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت کا تعلق ہے بظاہر اب تک اس کی کارکردگی کوششوں کی حد تک شاندار ہے تاہم نتائج کے لحاظ سے فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ حکمران صنعتوں کے لئے زیرو لوڈشیڈنگ کرنے، افراط زر 4 فیصد سے بھی کم کرنے، شرح سود 15 فیصد سے گھٹا کر 6 اعشاریہ 2 فیصد تک لانے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن سٹیٹ بینک آف پاکستان کوئی اور تصویر دکھا رہا ہے سو وفاقی حکومت کی قسمت کا فیصلہ وزیراعظم نواز شریف کے اعلان کے مطابق 2017ءمیں لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ منسلک رہے گا البتہ پنجاب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کی حکومتی کارکردگی بلاشبہ باقی تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے بہت بہتر رہی ہے۔ پنجاب حکومت نے ناقدین کے اعتراضات کا بھی نوٹس لیا ہے اور صحت و تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کے لئے بہت سے نئے اقدامات کئے ہیں جس کے باعث میاں شہباز شریف پنجاب کے مقبول وزیراعلیٰ قرار دیئے جاتے ہیں۔
جہاں تک عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے ان کی توانائیاں پانامہ سکینڈل میں صرف ہوئیں جس کے باعث اُن کو سٹریٹ پاور ظاہر کرنے کا بار بار موقع ملا اور عوام میں یہ تاثر گہرا ہوا کہ تحریک انصاف ملک کی اہم ترین جماعتوں میں سے ایک ہے اور عمران خان کی قیادت بھی مستند ٹھہری تاہم عمران خان اپنے حامیوں کے علاوہ دیگر لوگوں کو تاحال اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ بلاشبہ عوام کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جس نے ووٹ دینے کا فیصلہ ہوا کا رُخ دیکھ کر کرنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو عمران خان سڑکوں پر نہیں لا سکے اب اُن کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کچھ خاص کرنا ہو گا۔
ملک کی ان تینوں اہم جماعتوں کے علاوہ جماعت اسلامی، جمعیت علماءاسلام، جمعیت علماءپاکستان، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، پاک سرزمین پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ پچھلے دنوں پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفےٰ کمال اپنی جماعت کے وائس چیئرمین افتخار اکبر رندھاوا کے ہمراہ لاہور کا دورہ کر کے گئے ہیں۔ افتخار اکبر رندھاوا متحدہ قومی موومنٹ کے پہلے رہنما تھے جنہیں مشرف دور میں ”متحدہ“ کو پنجاب میں منظم کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ انہوں نے بہت کامیابی کے ساتھ ایم کیو ایم کے لئے پنجاب میں راہ ہموار کی تاہم نامعلوم وجوہات کی بناءپر اُن کو لاہور سے ملتان بھجوا دیا گیا اور لاہور میں سیف یار خان نے ان کی جگہ لی۔ اس سے ایم کیو ایم کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا نہ صرف ٹمپو ٹوٹ گیا بلکہ دوبارہ متحدہ قومی موومنٹ یہاں اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افتخار رندھاوا پاک سرزمین پارٹی کو پنجاب میں روشناس کرانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں کہ نہیں۔ افتخار رندھاوا کے مطابق پاک سرزمین پارٹی حیدرآباد میں ایک بڑا جلسہ کر چکی ہے اب 29 جنوری کو کراچی میں تبت سنٹر کے مقام پر جلسہ¿ عام کرنے جارہی ہے جس سے ثابت ہو جائے گا کہ کراچی کسی اور کا نہیں بلکہ پاک سرزمین پارٹی کا ہے۔ اُدھر لاہور میں اِن دنوں بلوچستان سے جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ نوابزادہ شازین بگٹی آئے ہوئے ہیں۔ اُن کی یہاں مختلف سیاسی رہنماﺅں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم اُن کے دادا اور والد کے دوست شریف حکمرانوں سے تاحال اُن کا رابطہ نہیں ہو پایا ہے۔ شازین بگٹی نہ صرف پنجاب میں جمہوری وطن پارٹی کو منظم کرنے کے خواہاں ہیں بلکہ ڈیرہ بگٹی اور سندھ کے مختلف علاقوں میں عوامی قوت کے مظاہر کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ نوابزادہ شازین بگٹی کو بلوچستان کے قبائل میں اس لحاظ سے منفرد حیثیت حاصل ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانیت کے حق میں بے خوف ہو کر آواز بلند کرتے رہتے ہیں تاہم بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے انہیں وفاقی حکومت سے بہت سی شکایتیں ہیں۔ گوادر اور سی پیک کے بارے میں اپنی بہت سی خوش گمانیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے خدشات بھی لاحق ہیں۔ اگر حکمرانوں نے اُن کے ساتھ کمیونیکیشن گیپ کم نہ کیا تو اس کا پاکستان کو نقصان ہو گا کیونکہ بلوچستان کی نوجوان نسل میں پینتیس چھتیس سال کے پڑھے لکھے نوابزادہ شازین بگٹی پاکستان کے بہت بڑے حامی ہیں۔