پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس: نئے احتساب قانون میں فوج، عدلیہ سمیت سب کو شامل کیا جائے: اپوزیشن
اسلام آباد (آئی این پی+نوائے وقت رپورٹ)وزیرقانون و انصاف زاہد حامد کو اتفاق رائے سے پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب قانون کا چیئرمین منتخب کرلیا گیا۔ پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے نومنتخب چیئرمین کو مبارکباد دی ہے۔ احتساب کا جامع اور موثر قانون بنے گا۔ اپوزیشن جماعتوں نے بلاتفریق بشمول فوج و عدلیہ کو اس قانون میں شامل کرنے کا مطالبہ کردیا، قانون کی تیاری کیلئے سابقہ دور میں احتساب ایکٹ کیلئے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات احتساب کمیشن کے بارے میں چیئرمین سینٹ اور قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف کے پیش بلز پارلیمانی کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی گئی۔ ابتدائی طور پر کمیٹی کے دائرہ اختیار کی منظوری دے دی گئی ہے۔ سید نوید قمر، شاہ محمود قریشی اور صاحبزادہ طارق اللہ نے احتساب قانون پر نظر ثانی کیلئے دونوں ایوانوں کی 20رکنی کمیٹی کے قیام کے باوجود نیب قانون میں ترمیم کیلئے آرڈیننس جاری کرنے کی سخت مخالفت کی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس پارلیمانی کمیٹی کی توہین ہے۔ شاہ محمود قریشی نے مطالبہ کیا کہ حکومت آرڈیننس سے دستبردار ہویا کمیٹی کو تحلیل کردیا جائے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ 20اگست 2016 کو قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی طرف سے احتساب بل پیش کرچکے ہیں، حکومت نے بالکل اس جامع بل کو کوئی اہمیت نہیں دی، اب عدالت عظمیٰ کی وجہ سے آرڈیننس لے آئے جب کہ حکومت پلی بارگین سمیت دیگر شقوں پر نظرثانی کا بلز کی صورت میں موقع ملا تھا، ان بلز پر وسیع تر اتفاق رائے موجود ہے۔ زاہد حامد نے وضاحت کی کہ سپریم کورٹ پلی بارگین اور رضاکارانہ واپسی سے متعلق نیب ایکٹ کی شق کو معطل کرچکی ہے، حکومت نے اپنے موقف کیلئے یہ آرڈیننس جاری کیا، پارلیمانی کمیٹی کے پاس اپنا مینڈینٹ ہے، ہم نے مجموعی طور پر قانون کا جائزہ لیا، پارلیمانی کمیٹی چاہے تو نیب سے متعلق قانون کو مکمل طور پر تبدیل کرسکتی ہے، پارلیمانی کمیٹی کے دائرہ کار میں توسیع کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے اس کی منظوری حاصل کرلی جائیگی، حکومت اس معاملے میں اوپن ہے۔ آفتاب احمد خان شیرپائو نے سب کے بلاامتیاز احتساب بشمول جرنیل اور ججز کو بھی قانون میں شامل کرنے کی تجویز دی اور کہا کہ اس تاثر کو تقویت دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ صرف سیاستدان کرپٹ ہیں، اگر ہم میں ہمت ہے تو بلاتفریق احتساب کا قانون بنالیں۔ فرحت اللہ بابر نے تجویز دی کہ عسکری ادارہ،عدلیہ کو قانون کا حصہ نہ بنایا گیا تو قانون کی اتنی افادیت نہیں ہوگی۔سینیٹر جاوید عباسی، نعیم کشورنے تجویز دی کہ اداروں کے صاف شفاف احتساب کو قانون کا حصہ بننا چاہیے۔ شاہ محمود قریشی نے نیب ترمیمی آرڈیننس کی مخالفت کرتے ہئے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے بعد صدارتی آرڈیننس جاری کیا جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر حکومت نیب ترمیمی آرڈیننس پر نظرثانی کے لئے تیار ہے تو پھر اسے واپس لے لیا جائے۔آفتاب شیر پائو نے کہا کہ حکومت نے جلد بازی میں نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کیا، اس میں بہت سی خامیاں اگر ہمت ہے تو احتساب قانون میں ججز اور جرنیلوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر ہمت نہیں ہے تو پھر فاتحہ پڑھ لیتے ہیں۔ عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ نیب قوانین پر نظرثانی میں وقت لگتا لیکن آرڈیننس کے ذریعے پلی بارگین اور رضا کارانہ واپسی کے قانون کا خاتمہ وقت کی ضرورت تھی نیب آرڈیننس کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ احتساب کے عمل سے کسی کو بالاتر نہیں ہونا چاہیے کوئی سیاسی جماعت ہو یا ادارہ احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بھی جاوید عباسی کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ افواج پاکستان اور عدلیہ کا بھی احتساب ہونا چاہیے صرف سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے احتساب سے قانون مکمل نہیں ہوگا۔