• news

فریقین نہیں چاہتے سچ سامنے آئے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ دی نیشن رپورٹ + نیوز ایجنسیاں) پانامہ پیپرز لیکس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ اگر وزیراعظم نے پورا سچ نہیں بتایا تو کیا غلط بیانی نہیں ہوگی؟ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے اور ان کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے، لیکن لگتا ہے اس کھلی کتاب کے بعض صفحات غائب ہیں، بعض مقدمات میں دستاویزی شواہد نہیں ہوتے، ایسے مقدمات میں عدالت کو حالات و واقعات پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے، نواز شریف کی وضاحت سے مقدمہ کلیئر نہیں ہوتا، وزیراعظم کے وکیل کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ پہلی تقریر میں کوئی بات رہ گئی تھی تو دوسری میں شامل کر سکتے تھے، تحریری بات میں کوتاہی ہو تو چھپانے کا مطلب لیا جا سکتا ہے بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ مقدمہ کے دونوں فریقین چاہتے ہیں کہ پورا سچ عوام کے سامنے نہ آئے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دو موقف سامنے آئے، ایک سچ ہوگا دوسرا جھوٹ، بات چھپانے کا تعین شواہد ریکارڈ کرنے سے ہو سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیر اعظم کے وکیل سے کہا کہ شریف فیملی کے بیانات میں تضادات ہیں، ہم نے سچ کا پتہ چلانا ہے، سچ بیانات سے نہیں دستاویزات سے معلوم ہوگا، وزیر اعظم نے اپنی تقریروں میں فلیٹس اور ریکارڈ موجودگی کا ذکر کیا، اب آپ پر ذمہ داری ہے جو بیان دیا اس پر عدالت کو مطمئن کریں، وزیراعظم نے خود دوبئی فیکٹری کا اعتراف کیا، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے۔ اس اعتراف کے بعد بار ثبوت آپ پر ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف بھی خاندانی کاروبار کا حصہ ہیں، جبکہ وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ وہ عدالت کے تمام سوالات کے جواب دیں گے، تاہم الزامات ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے، قانون کے مطابق بار ثبوت درخواست گزاروں پر ہے جنہوں نے متضاد موقف پیش کیا، جبکہ نااہلی سے متعلق قوانین کے مطابق شک کا فائدہ کامیاب امیدوار کو جاتا ہے۔ مخدوم علی خان نے وزیراعظم کا قوم سے خطاب پڑھ کر سنایا اور کہا کہ وزیراعظم کے والد نے مکہ کے قریب سٹیل مل لگائی، وزیراعظم نے بچوں کے کاروبار شروع کرنے کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہا تھا کہ جدہ فیکٹری کا سرمایہ بچوں نے کاروبار کیلئے استعمال کیا۔ دبئی فیکٹری پر ایگریمنٹ عدالت میں پیش کیا گیا۔ تحریک انصاف کی درخواست اور دلائل میں تضاد ہے۔ نواز شریف دبئی فیکٹری کے ڈائریکٹر تھے نہ حصہ دار نہیں تھے، التوفیق کیس میں نواز شریف فریق نہیں تھے، برطانوی عدالت کا فیصلہ بھی نواز شریف کے خلاف نہیں تھا، انجانے میں کوئی بات رہ جانا اور جان بوجھ کر چھپانے میں فرق ہے۔ نوازشریف کی برٹش ورجن آئی لینڈ میں کوئی کمپنی نہیں اور ان کا نام بھی کمپنیاں رکھنے والوں میں شامل نہیں، وزیر اعظم کسی آف شورکمپنی کے ڈائریکٹر، شیئرہولڈر یابینیفیشل مالک نہیں ہیں۔ تقاریر میں تضادکی بات کرکے نااہلی کی استدعاکی جارہی ہے اور وزیراعظم پر ٹیکس چوری کابھی الزام لگایاگیا اور ان کے بارے میں یہ کہا گیا کہ حسین نواز نے وزیراعظم کو تحفے میں رقم دی اور حسین نواز کا این ٹی این موجود نہیںجبکہ یہ بات درست نہیں حسین نواز کا نیشنل ٹیکس نمبر موجود ہے۔ پٹیشن میں نوازشریف پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد نہیں کیا گیا، پٹیشن کے مطابق نوازشریف نے الزامات کی درست وضاحت نہیں کی۔ مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کی پہلی تقریر عمومی جبکہ دوسری میں کچھ تفصیل بتائی گئی ، بعض اوقات دونوں لوگ اپنی معلومات کی بنیاد پر سچ بول رہے ہوتے ہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم یہ بات کیسے مان لیں؟ ہمارے پاس نواز شریف کے ڈائریکٹر نہ ہونے کی کوئی دستاویز نہیں۔ ہمارے سامنے دو قسم کی منی ٹریلز ہیں، ایک یہ کہ پیسہ دبئی سے جدہ اور پھر لندن گیا۔ دوسرا یہ کہ پیسہ دبئی سے قطر اور پھر لندن گیا۔ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ نوازشریف کا لندن جائیدادوں سے کوئی تعلق نہیں، دستاویزات دینا اور الزامات ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ دبئی فیکٹری کیلئے رقم دبئی کیسے گئی؟ وزیراعظم کے وکیل نے جواب دیا کہ دبئی فیکٹری قرض لے کر بنائی گئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق دبئی فیکٹری کے 25 فیصد شیئرز میاں شریف کے نہیں طارق شفیع کے تھے، آپ کی دستاویزات سے بھی بظاہر کیس واضح نہیں ہوتا۔ آپ کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا۔جسٹس گلزار احمد نے استفسارکیا کہ کیا دوبئی مل کا کوئی وجود تھا بھی یا نہیں تو وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ یہ ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے۔ عدالت کمیشن بنائے جو دوبئی جا کر مل کا جائزہ لے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ اگر پہلی تقریر میں کوئی بات رہ گئی تو دوسری تقریرمیں کور ہو سکتی تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم نے تحریر شدہ تقریر کی تھی فی البدیہہ نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا یہ معصومانہ خطا تھی یا جان بوجھ کر چھپایا گیا، تقریر میں اگر معصومانہ خطا ھے تو نظرانداز کیا جا سکتا ھے لیکن جان بوجھ کر کی جانے والے خطا کے سنگین نتائج ہوں گے۔ تقریروں اور کتابوں کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اپنی نوعیت کا سب سے منفرد کیس سن رہے ہیں، کیس کے ہر پہلو میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بعض مقدمات میں براہ راست ثبوت موجود نہیں ہوتا، ایسے کیسز میں حالات اور واقعات سے سچائی کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم کو ہٹانے کا طریقہ تحریک عدم اعتماد ہے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ثابت ہو وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے۔ اگر کوئی بات رہ گئی تو اسے غلط بیانی نہیں کہا جا سکتا، نواز شریف نے کہیں بھی جھوٹ نہیں بولا۔ دوسروں کے دیئے گئے بیانات پر وزیراعظم کو نااہل قرارنہیں دیا جا سکتا۔ آرٹیکل 62 پر نا اہلی کیلئے عدالتی فیصلہ ہونا ضروری ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے خود دبئی فیکٹری کا اعتراف کیا، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے۔ اس اعتراف کے بعد بار ثبوت آپ پر ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کیس یہ ہے کہ نواز شریف نے تقریر میں غلط بیانی کی، اگر غلط بیانی نہیں ہوئی تو آپ کو ثابت کرنا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہم تقریر کو غلط نہیں مانتے لیکن اگرکوئی چیز چھپائی گئی ہے تو پھر اسے آدھا سچ مانیں گے، مخدوم علی خان نے کہا کہ تفصیلات نہ بتانا جھوٹ کے زمرے میں نہیں آتا، وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں آ کراپنے خاندان کے کاروبار کاعمومی جائزہ دیا، ان کی اسمبلی میں تقریر کوئی سیاسی بیان نہی تھی ، وہکسی دعوی کا بیان حلفی نہیں تھا کہ وہ کسی مخصوص سوال کا جواب دے رہے ہوں۔ وزیراعظم کے بیان میں کوئی غلطی نہیں تھی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قوم سچ جاننا چاہتی ہے، دونوں فریق چاہتے ہیں کہ سچ سامنے نہ آئے، ایک جانب جائیں تو دیوار کھڑی کر دیتے ہیں، آپ کی طرف آئیں تو آپ دیوار کھڑی کر دیتے ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کا معاملہ 184 تین کے دائرہ کار میں نہیں آتا ، عوامی نمائندگی ایکٹ میں جھوٹا الزام لگانے کی سزا بھی پانچ سے 7 سال ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا وزیر اعظم نے سچ بولا یا ان کے بیٹے حسین نواز نے سچ بولا۔ اگر ایک نے سچ بولا تو دوسرے کا بیان سچ نہیں ہو گا۔دی نیشن کے مطابق وزیراعظم کے وکیل نے گزشتہ روز سماعت کے دوران عدالت سے کہا کہ نوازشریف اپنے بچوں کے اثاثوں اور جائیداد کے حوالے سے وضاحت دینے کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم بچوں کے اثاثوں کا جوابدہ کس طرح ہو سکتے ہیں جب کہ وہ ان کے زیر کفالت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزار نے نہیں کہا کہ حسین نواز اور حسن نواز وزیراعظم کے زیر کفالت ہیں اور وزیراعظم دبئی اور جدہ کی جائیداد میں حصہ دار نہیں تو ان کے پاس دستاویزات کیسے ہو سکتی ہیں۔ وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ دبئی مل کا وجود ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے، اس معاملے پر عدالت کمشن بنائے جو دبئی جاکر الزامات کا جائزہ لے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ میاں شریف کی وفات کے بعد ہدایات کے مطابق حسین نواز کو کاروبار منتقل ہوا، نواز شریف کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم نے سچ بولا یا ان کے بیٹے حسین نواز نے سچ بولا۔ اگر ایک نے سچ بولا تو دوسرے کا بیان سچ نہیں ہو گا۔ نواز شریف کے وکیل نے دلائل دیئے کہ عدالت دوسروں کے دیئے گئے بیانات پر وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتی۔ ٹی وی کے مطابق جسٹس عظمت سعید نے کہا ہے کہ دونوں فریق نہیں چاہتے کہ سچ سامنے آئے۔ کبھی ایک رکاوٹ کھڑی کرتا ہے تو کبھی دوسرا فریق، عوام سچ جاننا چاہتے ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم کی کھلی کتاب کے کچھ صفحے غائب ہیں ان کے آدھے سچ کو سچ مانیں یا جھوٹ؟ وکیل نے جواب دیا کہ کوئی بات رہ گئی ہو گی، تقریر تھی، بیان حلفی نہیں۔ سماعت آج پھر ہو گی۔

ای پیپر-دی نیشن