”موت او موت، تجھے موت ہی آئی ہوتی“
شائد قدرت کو مجھ سے نوحے لکھوانا ہی مقصود ہے کہ جب کالم لکھنے میں کچھ وقفہ آ جاتا ہے اور بادل نخواستہ بھی کالم لکھنے کو دل نہیںکرتا تو قدرت کی جانب سے مجھے کسی عزیز دوست کی ازلی جدائی کا جھٹکا لگا دیا جاتا ہے۔ اور یہ لاہور پریس کلب والے بھی بہت ظالم ہیں کہ کلب کے کسی لائف یا کونسل ممبر کے قدرت کی طرف سے بلاوے کی خبر آتے ہی ایس ایم ایس کر کے کلب کے دوسرے ارکان کو جھٹکا اور دھڑکا لگا دیتے ہیں۔ پہلے اس فریضہ کی ادائیگی ہمارے شاعر دوست ناصر بشیر نے اٹھائی ہوئی تھی جو قلم قبیلے کے کسی رکن کے سانحہ ارتحال کی خبر تمام احباب تک پہنچانے میں بذریعہ ایس ایم ایس پہل کیا کرتے تھے۔ اب حج اور عمرہ کا فریضہ ادا کرنے کے بعد انہوں نے قلم قبیلہ کیلئے اطلاعاتی فریضہ فراموش کر دیا ہے تو اب لاہور پریس کلب اپنے ارکان کو ”فکر فرداً“ کیلئے جھنجھوڑنے کا فریضہ ادا کرنے لگا ہے اور اس بہانے میرا قلم بھی کالم لکھنے پر مائل ہو جاتا ہے۔ اڑھائی ہفتے قبل یعنی گزشتہ سال کے اختتامی مراحل میں میں نے ایک ماہ کے وقفے کے بعد کالم لکھا اور اس کی تحریک اپنے پیاروں سید انور قدوائی، رفعت آپا اور مسرور کیفی کی ناگہانی ازلی جدائی سے ملی جس کے بعد کالم لکھنے میں وقفے کا پھر آغاز ہو گیا۔ آپ اسے میری کاہلی سمجھیں یا کچھ اور مگر آج کل کچھ ایسی کیفیت سے دو چار ہوں کہ کچھ کہنے، لکھنے، بولنے، سوچنے کو دل نہیں کرتا....
جی کردا اے ہن تے سُتّے سَوں جائیے
آسی یارا جاگن نوں ہن جی نہیں کردا
بس ایسا ہی ہے کہ ”گزر رہا ہے عجب کش مکش میں دیدہ دل“۔ دنیا کی بے اعتنائی کچھ زیادہ ہی دل میں جاگزیں ہوئی جاتی ہے۔ دیکھتے دیکھتے انمول ہیرے آنکھوں سے اوجھل ہوئے جاتے ہیں تو یہ حقیقت بھی کھلتی جا رہی ہے کہ....
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
ایسی ہی کیفیت میں گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک دوست کی پوسٹ پر نظر پڑی تو اس کے مندرجات پڑھ کر میں عملاً خلاﺅں میں کہیں گم ہو گیا۔ پاﺅں کے نیچے اور سر کے اوپر بس خلا ہی خلا نظر آیا اور اس میں لڑھکتا ہوا میرا بے بس وجود۔ اف خدایا! یہ پوسٹ پیاری بہن رخسانہ نور کی خالق حقیقی سے جا ملنے کی اندوہناک اطلاع پر مبنی تھی۔ آنکھیں بھیگیں تو پھر آنسوﺅں پر کوئی اختیار ہی نہ رہا۔ بس گزری چار دہائیوں کی یادیں چھما چھم برسنے لگیں۔ ابھی اس صدمے کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہی نہیں پا رہا تھا کہ لاہور پریس کلب کے آدھی رات کو موصول ہونے والے ایس ایم ایس نے آنکھوں کی ویرانی میں اضافہ کر دیا۔ یہ اطلاع سدا بہار، چہچہاتے، اٹکھیلیاں کرتے ہمارے خوش مزاج، خوش لباس دوست فاروق علی اعوان کے اچانک اس دنیا سے اٹھ جانے کی تھی۔ مجھے قطعاً یقین نہ آیا کہ یہ ناگوار اطلاع ہمارے اس دوست فاروق علی اعوان کے انتقال کی ہے جو ایک دن پہلے فون کر کے مجھے اگلے روز ملاقات کرنے کی شرارتی آنکھوں اور کھلکھلاتی شگفتہ آواز کے ساتھ نوید سنا رہے تھے۔ یہی اطلاع مجھے فاروق تسنیم کے ایس ایم ایس کے ذریعہ ملی تو میں نے غیر یقینی کی کیفیت میں ہی اس اطلاع کی تصدیق کیلئے انہیں فون کیا تو انہوں نے میرے استفسار پر اس حقیقت کی تصدیق کر کے میرے ذہن پر ہتھوڑا چلا دیا کہ خالق حقیقی سے اچانک جا ملنے والے فاروق علی اعوان میرے پنجاب یونیورسٹی لاءکالج کے کلاس فیلو اقبال محمود اعوان ایڈووکٹ ہی کے چھوٹے بھائی ہیں جو ایک عرصہ تک نوائے وقت کے رپورٹنگ ڈیسک پر میرے کولیگ بھی رہے ہیں۔ یہ ایسی اطلاع تھی کہ تصدیق ہونے کے بعد بھی اس پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ بس پھر کیا تھا۔ بہن رخسانہ نور اور فاروق علی اعوان سے وابستہ یادیں ایک دوسرے میں گڈمڈ ہونے لگیں....
حیراں ہوں، دل کو روﺅں کہ پیٹوں جگر کو میں
رخسانہ نور سے میری یاد اللہ 80ءکی دہائی میں شروع ہوئی۔ وہ اس وقت رخسانہ آرزو کے نام سے معروف تھیں۔ ”جنگ“ سے وابستہ تھیں اور نو عمری میں ہی سوز و گداز والی اچھی شاعرات میں ان کا شمار ہونے لگا تھا۔ 1984ءمیں لاہور پریس کلب کے انتخابات میں میں سیکرٹری کے منصب کا امیدوار تھا۔ یہ پریس کلب کا وہ دور تھا جب ضیاءالحق کے مارشل لاءکے شکنجوں سے نکال کر ”ضیائی آشیر بادی“ پریس کلب کے مقابل اس پریس کلب کی تشکیل کی گئی تھی۔ اس میں کسی سینئر صحافی کو بلا مقابلہ صدر کے منصب پر سرفراز کیا جاتا اور انتخاب صرف سیکرٹری اور گورننگ باڈی کی چار نشستوں کیلئے عمل میں آتا۔ 84ءکے الیکشن میں سیکرٹری کیلئے ”جنگ“ سے خاور نعیم ہاشمی میرے مدمقابل تھے۔ ”جنگ“ کے احباب نے یہ معرکہ نوائے وقت اور جنگ کا معرکہ بنا دیا حالانکہ خاور نعیم ہاشمی خود بھی ایک معروف صحافی تھے جو ضیائی مارشل لاءکے کوڑے کھانے کا اعزاز بھی حاصل کر چکے تھے۔ ان کے اسی پس منظر کے باعث میں اپنی کامیابی کے معاملہ میں کچھ گڑبڑایا ہوا تھا اور پولنگ والے دن تو ”جنگ“ والوں کی حکمت عملی نے مجھے اور بھی پریشان کر دیا۔ جنگ کی تمام خواتین کارکنان خوش شکل رخسانہ آرزو کی معیت میں میری مخالفانہ مہم کیلئے کلب کے باہر ایک قطار میں کھڑی کر دی گئیں جن میں بعض دوسرے اخباری اداروں کی خواتین بھی شامل ہو گئیں اور ان کی مہم کے منفرد انداز سے ہر ووٹر متاثر نظر آنے لگا۔ یہ ساری حکمت عملی ہمارے دوست اطہر مسعود کی وضع کی ہوئی تھی۔ اسی جارحانہ مہم کے دوران ریڈیو پاکستان کے پنجابی پروگرام ترنجن کی ہوسٹ نگار زریں شاہد خواتین کی اس قطار سے نکل کر اچانک میرے پاس آ گئیں اور رازداری کے انداز میں مجھ سے مخاطب ہوئیں۔ ”آپ ہماری اس مہم سے ہرگز نہ گھبرائیں۔ یہ مہم جبر کے ایک ماحول کے باعث شروع ہوئی ہے اور میں آپ کو یہ اطلاع دینے آئی ہوں کہ خواتین کی اس قطار میں موجود ہر ووٹ آپ کا ہے“ مجھے نگار کی اس بات پر قطعاً یقین نہ آیا مگر نتیجہ آیا تو میرے دوسرے دوستوں اور احباب کی محبتوں کے ساتھ ساتھ نگار زریں شاہد کی یقین دہانی بھی میری کامیابی میں حصہ ڈالتی نظر آئی۔ اگلے روز رخسانہ آرزو مٹھائی کا ڈبہ اٹھائے مجھے مبارکباد دینے آئیں اور نگار زریں شاہد کی کہی بات کی تصدیق کی تو قدرت کے اسباب پر یقین کامل اور بھی پختہ ہو گیا
بندہ کرے کوّلیاں تے سوہنا ربّ کرے سولیاں
رخسانہ آرزو اور خاور نعیم ہاشمی کے ساتھ بعدازاں تعلق داری کا ایسا رشتہ جڑا کہ اس میں کبھی کوئی گرہ نہیں پڑ سکی۔ رخسانہ آرزو 1984ءمیں ہی سید نور کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ کر رخسانہ نور ہو گئیں۔ اس وقت سید نور غیر معروف کہانی کارتھے۔ رخسانہ آرزو نے نور بن کر ان کا مستقبل روشن کر دیا اور اس نور نے فلمی دنیاکے ابتلا کے آج کے دور میں بھی انہیں قصہ پارینہ نہیں ہونے دیا۔ رخسانہ نے ان سے وابستہ ہو کر جنگ کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ ایک دن ان کا فون آیا کہ میرے اندر پھر ”آرزو“ پیدا ہو گئی ہے مگر اب میں جنگ میں لکھنا نہیں چاہتی۔ میں نے انہیں خوش آمدید کہا اور محترم مجید نظامی سے بات کر کے نوائے وقت میں ان کا کالم شروع کر دیا۔ وہ کچھ عرصہ تواتر سے لکھتی رہیں مگر پھر وقفہ پڑ گیا۔ میں نے فون پر ان سے شکوہ کیا تو گھریلو مسئلے مسائل بھی ان کے کالم میں وقفے کا باعث بنے نظر آئے۔ میرے مجبور کرنے پر انہوں نے دوبارہ قلم اٹھایا۔ پھر جب بھی ان کی جانب سے وقفہ ہوتا تو میں فون کر کے انہیں قلم اٹھانے پر قائل کر لیتا۔ میرے ہر فون پر ان کا اپنائیت کا یہ انداز میرے دل کی اتھاہ گہرائیوں تک اثر پذیر ہو جاتا کہ سعید بھائی آپ نے مجھے زندہ رکھا ہوا ہے۔ مجھے ان کے کینسر کے عارضہ کا قطعاً علم نہیں تھا۔ جبکہ کینسر کے عارضہ میں نگار زریں شاہد کی رحلت میرے لئے فانی زندگی کی حقیقت آشکار کر چکی تھی۔ گزشتہ سال رخسانہ نور اپنی بیٹی کے پاس امریکہ گئیں تو وہاں سے بھی میرے ساتھ ان کا ٹیلیفونک رابطہ قائم رہا۔ پھر ایک دن اچانک ان کے سخت علیل ہونے کی خبر ملی تو میں نے بہن طیبہ ضیاءچیمہ سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے کہا جنہوں نے اگلے روز مجھے ان کے کینسر کے عارضہ سے آگاہ کیا۔ خدا کے حضور ان کی صحت یابی کی دعا کی۔ پھر ڈیڑھ دو ماہ بعد رخسانہ واپس آئیں تو کچھ دنوں کے توقف کے بعد میں نے انہیں کالم نگاری کی طرف واپس آنے پر قائل کر لیا۔ انہوں نے تین چار کالموں کی پابندی تک یہ عہد نبھایا مگر پھر وقفہ شروع ہو گیا۔ طیبہ ضیاءنے اپنی کتاب ”جھلی“ کی الحمراءلاہور میں تقریب رونمائی کا انعقاد کیا تو میں نے وہاں بھی رخسانہ نور سے کالم دوبارہ شروع کرنے کا عہد لیا مگر اس تقریب کے بعد ان کی دوبارہ شدید علالت کی خبر ملی اور پھر ان سے رابطہ بھی عملاً منقطع ہو گیا۔ ان کا اپنائیت کا ایسا جذبہ تھا کہ میرے صرف ایک ایس ایم ایس پر میرے بیٹے شہباز سعید کی شادی کی تقریب میں علالت کے باوجود شریک ہو گئیں جبکہ قلم قبیلے کے کچھ احباب کو باقاعدہ کارڈ ملنے پر بھی یہ توفیق نہیں ہو سکی تھی۔ آج ان کی رحلت پر یہ چند سطور لکھ کر دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے مگر
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
فاروق علی اعوان سے بھی 80ءکی دہائی سے ہی یاد اللہ شروع ہوئی تھی جو لاہور پریس کلب کی 1984ءکی باڈی میں گورننگ باڈی کے رکن کی حیثیت سے ثقافتی رونق میلہ سجاتے رہے۔ انہوں نے یوتھ ٹیلنٹ کونسل بنائی اور اس کے صدقے اپنے آخری سانس تک خود کو جوان ثابت کرتے رہے۔ میرے کلاس فیلو ان کے برادر بزرگ اقبال محمود اعوان بھی پیرانہ سالی کا تاثر غالب ہونے سے پہلے ہی اس جہان فانی سے گزر گئے اور اب فاروق علی اعوان۔ خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں۔ اور اس ایک ہفتے میں صحافتی دنیا کے ایک اور سرخیل ہمارے دیرینہ ساتھی اور لاہور پریس کلب کے لائف ممبر رﺅف شیخ بھی تو خاموشی کے ساتھ اگلے جہان جا سدھارے ہیں
موت او موت، تجھے موت ہی آئی ہوتی