• news

فوجی عدالتین اپوزیشن کے تحفظات دوسرا اجلاس بھی بے نتیجہ فضل الرحمن اچکزئی کی شدید مخالفت

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ ایجنسیاں) پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کے دوسرے اجلاس میں بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر اتفاق نہ ہوسکا جس کے بعد پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کا اجلاس 31جنوری تک ملتوی کر دیا۔ فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نے واضح کردیا ہے کہ فوجی عدالتوںکی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ اجلاس کے دوران حکومتی اتحادی جماعتوں نے بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی شدید مخالفت کی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان عمل درآمد پر سکیورٹی اداورں کی بریفنگ کیلئے پارلیمنٹ کا ان کیمرہ مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے اسی طرح اپوزیشن جماعتوں نے فرقہ وارانہ و کالعدم تنظیموںکی سرگرمیوں، مدارس کے معاملات، نظام عدل میں مجوزہ اصلاحات اور دیگر اہم معاملات کے بارے میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت سے مزید سوالات کے جوابات طلب کر لئے ہیں۔ وزیر قانون و انصاف نے تصدیق کی ہے کہ اپوزیشن فوجی عدالتوں و نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق مزید سوالات کے جواب اور اہم معاملات پر تشفی چاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے اجلاس میں دینی جماعتوں کا بھی موقف بھی پیش کیا اور کہا کہ حکومت یکطرفہ طور پر اس معاملے میں ترمیم لائی تھی اور اس کے تحت ہونے والی قانون سازی دہشتگردی و انتہا پسندی کو مذہب اور مسلک سے منسلک کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس امتیازی ترمیم کی حمایت نہیں کیا جا سکتی۔ پارلیمانی قائدین کا اجلاس سپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد اور وزیر مملکت، معاون خصوصی انسانی حقوق بیرسٹر ظفراللہ نے حکومت کی نمائندگی کی جبکہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ اجلاس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کا رویہ انتہائی مثبت رہا ہے۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہاکہ وفاقی وزیرقانون نے بریفنگ دی ہے جس سے مزید سوالات اٹھ گئے ہیں، حکومت سے کہا گیا ہے کہ آئندہ اجلاس میں ان سوالات کے جوابات دیئے جائیں۔ معاملات انتہائی حساس ہیں، دہشتگردی کا خاتمہ ہماری ترجیح بھی ہے اور قومی ضرورت بھی۔ پارلیمنٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی کیا ہے۔ دہشتگردی اور انتہاپسندی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو ہمارے لیے مشترکہ طور پر چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ حکومت بھی تو بتائے کہ اس نے کیا کیا ہے،آج کی بریفنگ سے مطمئن ہونا نہ ہونا معنی نہیں رکھتا بلکہ اصل مسئلہ دہشتگردی کے چیلنج کو دیکھنا ہے۔ بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ تمام جماعتیں جب تک اتفاق نہیں کرتیں فوجی عدالتوں کے معاملے پر کچھ نہیں کرسکتے، تمام جماعتیں اس بات کا ادراک رکھتی ہیں کہ اس پر سیاست نہ کی جائے فوجی عدالتوں اور نیشنل ایکشن پلان پر اعتماد میں لیا ہے، آئندہ اجلاس میں سوالات کے جوابات دے دیئے جائیں گے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ دہشتگردی کا خاتمہ سب کی ترجیح ہے مگر ہم نے کارکردگی کا جائزہ بھی لینا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن