باچا خان یونیورسٹی حملہ کو ایک سال مکمل، سکیورٹی انتظامات بہتر‘ طلبا ناخوش
پشاور (بی بی سی) خیبر پی کے کے ضلع چارسدہ میں قائم باچا خان یونیورسٹی پر شدت پسندوں کے حملے کو ایک سال ہوگیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے اب سکیورٹی کے انتظامات بہتر کر دئیے گئے ہیں۔ طلبا کہتے ہیں ان کے ساتھ کیے گئے وعدے اب تک وفا نہیں کئے گئے۔ باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی پہلی برسی آج ہے اور اس سلسلے میں یونیورسٹی میں تدریسی عمل دو روز کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے ترجمان کے مطابق حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لیے قرآن خوانی کی جائے گی۔ باچا خان یونیورسٹی پر 20 جنوری سال 2016ءمیں شدت پسندوں نے عقبی دیوار سے داخل ہو کر حملہ کیا تھا جس میں چودہ طلبا اور عملے کے 4 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد یونیورسٹی میں سیکیورٹی انتظامات پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ حالانکہ ایسی اطلاعات تھیں کہ یونیورسٹی کے سیکیورٹی گارڈز نے جان ہتھیلی پر رکھ کر حملہ آوروں کا کیا تھا۔ باچا خان یونیورسٹی کے ترجمان سعید خان خلیل نے بتایا گزشتہ سال کی نسبت اب یونیورسٹی میں سیکیورٹی انتظامات بہتر کر دئیے گئے ہیں۔ اب یونیورسٹی کی تمام بیرونی دیواریں اونچی کر دی گئی ہیں۔ جبکہ 15 سے زیادہ مورچے قائم کیے گئے ہیں جہاں ہر وقت سکیورٹی اہلکار تعینات رہتے ہیں۔ یونیورسٹی میں سیکیورٹی گارڈز کی تعداد اب 115 ہو گئی ہے جنھیں خود کار اسلحہ فراہم کر دیا گیا ہے۔ باچا خان یونیورسٹی کے طلبا نے چند روز پہلے چارسدہ شہر میں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا حکومت نے جو وعدے ان سے کیے تھے ان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ مظاہرے میں شامل طالبعلم رہنما محمد باسط خان نے کہا حکومت کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بھی اس یونیورسٹی کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح آرمی پبلک سکول کے بچوں کو پیکج دیے گئے اسی طرح باچا خان یونیورسٹی کے طلبا کو بھی پیکج فراہم کیا جائے اور طلبا کو اعزازی ڈگریاں دی جائیں۔ یونیورسٹی میں قائم بلاکس کو ہلاک ہونے والے طلبا کے ناموں سے منسوب کیا جائے۔
باچا خان