کیا بلاول پنجاب فتح کر لے گا؟
بلاول کی ریلی کی ایک جھلک تو بدھ کے روز تب ہی نظر آ گئی تھی جب چالیس پچاس خواتین و حضرات نے لاہور پریس کلب کے سامنے سیاسی قوت کا مظاہرہ کر کے اگلے روز لاہور سے فیصل آباد تک ’’کرپشن‘‘ کیخلاف گو نواز گو ریلی کی جانب لاہوریوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کی اس پر لاہور کے لوگ کس حد تک متوجہ ہوئے اس کا اندازہ لاہور کے لوگوں کی اس ریلی میں شرکت سے لگایا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنما قمر زمان کائرہ، افضل چن اور اعتزاز احسن کی یہ سوچ بہت درست ہے کہ پیپلز پارٹی کی بحالی کیلئے صاف ستھرا دامن رکھنے اور بینظیر بھٹو کا بیٹا ہونے کے ناطے بلاول بہترین ذریعہ ہے۔ یقیناً کرپشن کے حوالے سے بلاول کی ذات پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی لیکن والد محترم جو سر سے پائوں تک کرپشن کے الزامات میں لتھڑے ہوئے ہیں وہ ہی اس نوجوان کے سیاسی راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ یوں ہیں کہ بلاول کو قدم قدم پر اس کا سامنا کرنا پڑے گا کہ پہلے والد محترم کا دامن داغ دھبوں سے پاک کرو پھر دوسروں کی کرپشن کے خلاف شور مچانا کیا بلاول یہ اعلان کر سکتا ہے کہ میں اقتدار میں آ کر کرپشن میں ملوث افراد کو احتساب کی ٹکٹکی پر چڑھائوں گا خواہ اس میں میرا باپ زرداری بھی شامل کیوں نہ ہو اور ایسے افراد کو صرف اسی صورت نجات ملے گی اگر وہ ان داغ دھبوں سے اپنے دامن صاف کرا دیں۔ دراصل یہ الزامات اور ان کا پس منظر ہی ہے کہ جناب زرداری کو قومی اسمبلی کے ایوان کی ’’رونق‘‘ بننے کا فیصلہ خود واپس لینا پڑا اس کیلئے یہ بہانہ گھڑا گیا کہ پارٹی کی رائے ہے کہ زرداری خود الیکشن نہ لڑیں بلکہ صرف بلاول کو پارلیمنٹ میں آنے دیں تاکہ بلاول کو آگے آنے کا موقع ملے جبکہ اندر کی بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کی صورت میں مال و جائیداد کے حوالے سے گوشوارے داخل کرنے پڑیں گے جنہیں ملک بھر سے چیلنج کرنے کا سونامی بہا لے جائیگا سب سے پہلے تحریک انصاف کی جانب سے چیلنج کیا جائے گا جس کا اثر کم کرنے کیلئے (ن) لیگ کو بھی چیلنج کرنا پڑے گا بصورت دیگر مک مکا اور ’’نورا کشتی‘‘ کے الزامات کے تیروں کا ہدف بننا پڑے گا چیلنج کرنے والوں میں وکلاء کی تعداد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا پھر سرے محل، ڈائمنڈ ہار، سوئس اکائونٹس، سندھ کی شوگر ملیں، دوبئی کی محل نما رہائش گاہ اور نہ جانے کون کون سے ’’گڑے مردے‘‘ سامنے آئینگے اس سے بچائو کی ایک ہی صورت ہے کہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے ارادوں کا بھاری پتھر اٹھانے کی بجائے چوم کر رکھ دیا جائے ہاں صدر مملکت کے انتخاب میں گوشوارے داخل نہیں کئے جاتے اور زرداری صاحب کیلئے دوبارہ صدر کا الیکشن لڑنا تب ہی ممکن ہے جب وزیراعظم نواز شریف موجودہ صدر مملکت ممنون حسین کو کراچی واپسی کا راستہ دکھا دیں لیکن کیا (ن) لیگ کے لیڈر اور کارکن انہیں اپنی حکومت میں صدر قبول کر لیں گے اور اگر اس کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے تو یقین کر لیا جائے سورج مغرب سے طلوع ہونا شروع ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دوستوں کے بقول لاہور سے فیصل آباد ریلی جس کا مقصد پنجاب میں پیپلز پارٹی کی دوبارہ بحالی ہے ابھی اس مقصد کے حصول کی منزل دور ہے مگر ابھی تک یہ شروعات ہیں اور بلاول جب پنجاب میں پوری طرح سرگرم ہو گا تو پارٹی کے تن مردہ جان ضرور پڑے گی اس مفروضے سے ایک ہزار بار اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر یہ حقیقت تب ہی بن سکتا ہے جب زرداری صاحب پارٹی سے ایسے ناطہ توڑ لیں کہ جیسے کبھی کوئی تعلق تھا ہی نہیں‘‘ بلاول کیلئے واحد مسئلہ یہ نہیں کہ والد محترم پر کرپشن کے الزامات کے سائے ہر آن تعاقب میں رہیں گے بلکہ ایک مسئلہ پنجاب میں (ن) لیگ کو ایک خاص حد تک ہی سیاسی نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا بھی ہے میثاق جمہوریت کے تحت سندھ تمہارا، پنجاب ہمارا کی تقسیم کے فارمولے کو بھی مدنظر رکھنا ہے بصورت دیگر پنجاب میں شہباز شریف کی کارکردگی کے تاثر کا جھنڈا اٹھا کر (ن) لیگ اس سے کہیں کم وقت میں سندھ میں اپنی جڑیں پھیلا سکتی ہے جتنی مدت میں پیپلز پارٹی پنجاب میں بحالی کا مقصد حاصل کریگی دراصل پنجاب میں (ن) لیگ کی سیاسی پیش رفت (اسے کچھ بھی نام دیا جائے) اور پیپلز پارٹی کی غیر فعالیت نے تحریک انصاف کو قدم جمانے کا موقع دیا ۔ تحریک انصاف پنجاب میں دوسری بڑی سیاسی قوت اور حقیقی اپوزیشن پارٹی ہے پنجاب میں ہونیوالے ضمنی انتخابات نے بھی اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے ہر حلقے میں پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر مگر بہت پیچھے رہی ہے اسے دوسرے نمبر پر لانے کیلئے بھی پہلے تحریک انصاف کے ’’پتھر‘‘ کو ہٹانے کا زور لگانا پڑے گا ۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی توشہ خانہ میں کیا ہے ’’بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا، بھٹو نے غریب کی بات کی، بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی یا بینظیر کو شہید کیا گیا۔ بلاول ایک شہید کا نواسہ، ایک شہید کا بیٹا ہے‘‘ ان باتوں سے لوگوں کی ہمدردی تو بلاشبہ حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ پانچ سالہ اقتدار کی صورت یہ ہمدردی کیش بھی کرائی جا چکی ہے۔ ان باتوں سے مزید ہمدردی کے جذبات اُبھر سکتے ہیں مگر یہ روٹی، کپڑا اور مکان کی طرح کوئی ایسا پرکشش پروگرام نہیں ہے۔ جو مسائل کا شکار لوگوں کیلئے صبح امید کی کرن بن سکے۔ عمران خان اگر کرپشن کے خلاف نعرہ لگاتا ہے تو یہ عام آدمی کی توجہ کھینچ سکتا ہے کہ اس حوالے سے اسکے دامن پر کوئی سیاہ داغ دھبہ نہیں ہے تاہم اس سے دائیں بائیں حصار باندھے کھڑے ہوئوں کی ایسی ساکھ بہرحال نہیں ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں بدترین کارکردگی کے ریکارڈ۔ بلاول نے پنجاب میں تحریک انصاف کی رکاوٹ عبور کر کے (ن) لیگ کے سیاسی قلعہ کو فتح کر لیا ہے تو بلاخوف تردید یہ وطن عزیز کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ ہو گا۔ کیا ایسا ہو گا اس سوال کا جواب آنے والے ایام کے آئینہ میں ہی دیکھا جا سکے گا۔