یکایک ہر بلند آواز پہنچائی نہیں جاتی
ممتاز برطانوی قلسفی برٹرینڈ رسل لکھتا ہے۔ ’’اپنے نظریات کے انوکھے پن سے خائف نہ ہوں کیونکہ آج جو بھی نظریہ قبول ہے وہ اتبداء میں عجیب و غریب ہی دکھائی دیتا تھا‘‘۔ دراصل جب بھی کوئی نیا نظریہ سامنے آتا ہے تو اسکے مخالفت روایتی طرز فکر کے حامل اشخاص کرتے ہیں۔آبائو اجداد کا مذہب یا طریق زندگی ترک کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔قدیم افکار اور وراثتی نظریات و عقائد فطرت ثانیہ بن جاتے ہیں۔بقول حیدر وہلوی …؎
ابھی ماحول عرفان ہنر میں پست ہے حیدر
یکا یک ہر بلند آواز پہچانی نہیں جاتی
برٹرینڈ رسل مزید لکھتا ہے کہ عقیدت کی بنیاد اجداد کے عقائد کی بجائے دلیل و استدلال پر رکھو۔محض عقیدت ہوتو وہ منفی عقیدہ ہے ۔عقل اور عقیدت اگر ہمدم و ہمساز ہوجائیں تو وہ ’’وحئی قرآنی‘‘کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔قرآن مجید واحد الہامی کتاب ہے جس نے عقائد کی بنیاد تدبرو تفکر پر رکھی ہے اور بار بار’’افلا تعقلون‘‘ اور ’’افلاتفکرون‘‘ کی نصیحت کرتی ہے۔زمین و آسمان کی تخلیق،کائنات کے اسرار و رموز، انسان کی پیدائش و تشکیل،حیات و ممات ،توحید اور روز قیامت کے بارے میں قرآن پاک ایک استدلائی انداز میں پیغام دیتا ہے۔حضرت ابراہیم ؑ نے جب نمرود سے مکالمہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ میرا خدا مشرق سے سورج کو طلوع کرتا ہے ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے۔ تجھے دعویٰ خدائی ہے تو مغرب سے سورج کو طلوع کرکے مشرق میں غروب کرکے دکھا۔کتنی سادہ اور حقیقی دلیل تھی۔نمرود شرمندہ ہوا اور سٹٹیا کے رہ گیا۔آپ نے قوم سے فرمایا کہ بتوں کی پوجا مت کرو۔ جواب آیا۔ ہم اپنے اجداد کے مذہب کو کیسے ترک کریں۔ پیغمبرؐ اسلام کو بھی یہی جواب مشرکین مکہ نے دیا کہ اجداد کے مذہب کو کیسے ترک کریں۔ جرمن فلسفی نطشے لکھتا ہے۔ ’’تمہارا طریق تمہارے لئے اور میرا طریق میرے لئے۔ جہاں تک صراط مستقیم کا تعلق ہے وہ کہیں بھی وجود پذیر نہیں‘‘۔ سورۃ الکافرون میں لقد دینکم ولی دین کا اعلان ہوا جس کا اعادہ نطشے نے کیا لیکن وہ ’’اھدناالصراط المستقیم‘‘سے بے خبر رہا۔ جرمن فلسفی آرتھر شوپنہار لکھتا ہے۔’’سچائی تین مراحل طے کرتی ہے۔اول۔اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔دوم۔اس کی سختی سے طاقت کے زور پر مخالفت کی جاتی ہے۔سوم۔بالآخر سچائی کو تسلیم کرنا پڑتا ہے‘‘۔میں جب تحریک اسلام پر نظر دوڑاتا ہوں تو حقانیت اسلام کو تسلیم کرنے کیلئے انہی تین مراحل کو عبور کرنا پڑا۔اعلان اسلام پر مشرکین مکہ نے آپ کا مذاق اڑایا۔ سحرزدہ دیوانہ اور طالب زور و زر کہا۔ پھر مدینہ پر مکہ سے لشکر کشی کی جنگ بدرواحد و خندق کے معرکے مشرکین مکہ سے ہوئے اور جنگ خیبر یہودیوں سے ہوئی۔بالآخر فتح مکہ ہوئی۔لیکن مدینہ کے لوگوں نے اسلام کی حقانیت کو فتح مکہ سے قبل ہی دل و جان سے تسلیم کر لیا تھا اور وہ شمع رسالت کے پروانے تھے۔’’قد جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوتا‘‘۔قرآن مجید کا یہ ابدی و سرمدی پیغام ہے۔حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔بے شک باطل نے بھاگنا ہی ہوتا ہے۔دنیا میں بھی حاشیہ برداروں، کاسہ لیسوں، منافقوں اور چاپلوسوں کا کوئی مقام نہیں ہوتا۔ بقول اقبال …؎
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
ایک دوسرا نامور جرمن فلسفی امنیول کانٹ رقم طراز ہے۔’’یہ بات باعث اعزاز نہیں ہے کہ میں آسودہ اور خوشحال زندگی گزار رہاں ہوں بلکہ یہ بات باعث اعزاز ہے کہ میں عزت سے زندگی گزار رہا ہوں‘‘۔مزید براں وہ لکھتا ہے۔’’ایسے اخلاقیات کی پاسداری کرو کہ تمہارا فعل ابدی و آفاقی قانون بن جائے‘‘۔گویا ’’عشرت‘‘کی زندگی اور ’’عزت‘‘کی زندگی میں فرق ہے۔جب حضرت امام حسینؓ کو بعض مصلحت پسند لوگوں نے یزید سے مصالحت کا مشورہ دیا تو آپ نے فرمایا ’’ایسی ذلت آمیز زندگی پر لعنت‘‘دنیا میں اکثریت عیش و عشرت کی زندگی کی خواہاں ہے۔ پاکستان کی مثال لے لیجئے۔جو سیاستدان جنرل پرویز مشرف کے اشارہ ابرو پردست بستہ رہتے تھے ان میں کچھ آج نواز شریف کے دستر خوان پر موجود ہیں اور نہایت بے حیائی اور بے شرمی سے ٹیلویژن کے پروگراموں میں اسی طرح نواز شریف کی حمایت میں رطب اللسان ہیں جیسے جنرل پرویز مشرف کے گن گاتے تھے۔پس ماندہ اور درماندہ اقوام ہمیشہ کسی رہبر و رہنما کی تلاش میں صحرائے بسیط و بے آب وگیاہ میں سرگرداں و نالاں رہتی ہیں جبکہ ترقی یافتہ اور مہذب اقوام اجتماعی شعور کو بروئے کار لاتی ہیں جسے عصر حاضر کی سیاسی اصطلاح میں جمہوریت کہا جاتا ہے ۔ملوکیت و ملائیت کے آئنی شکنجوں میں پھنسے ہوئے افراد آسمانوں سے غیبی امداد کے طلب گار نظر آتے ہیں۔بقول اقبال …؎
میرسد مردی کی زنجیر غلاماں بشکند
دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما
ہم مشرقی اور افریقی ممالک کے لوگ کسی لنین،ماؤزے تنگ اور خمینی کی راہیں دیکھتے ہیں۔ ملوکیت زدہ ،غربت زدہ اور آمریت زندہ اقوام شرق و غرب صدیوں سے کسی مہدی،زماں کے منتظر ہیں،شمالی کو ریا کا کم ال سنگ ہو ،عراق کا صدام ہو،لیبیا کا قدافی ہو،انڈونیشیا کا سوٹیکارنو ہو،سوڈان کا عیدی امین ہو یا یہ کیوبا کا فیڈل کاسترو ہو ، نظام زندگی بدلنے اور انقلاب لانے کیلئے ہم کسی ’’مرد آہن‘‘کے منتظر رہتے ہیں ۔خوش نصیب ہیں وہ اقوام جن کی عروق مردہ میں زندگی کی رمق کسی رہبر مخلص نے پھونکی مگر یہ حقیقت بھی قابل افسوس ہے کہ ان میں سے بعض نے انقلاب کے بعد قوم کو آمریت کے شکنجوں میں جکڑ دیا۔لوٹ مار کی قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ عوام کی زندگی اجیرن بنادی۔آزادی مفقود اور زندگی محدود، جادۂ عزت مسدود،کچھ نے تو دولت سمیٹنے کے علاوہ قوم کی نوجوان اور خوبرو بیٹیوں کی عصمت دری بھی کی۔ انکے نام لکھنے سے نوک قلم شرماتی ہے اور سرجھکاتی ہے ۔ایسے حالات میں مجھے فرانسیسی فلسفی البرٹ کامس کے الفاظ یاد آرہے ہیں ۔وہ لکھتا ہے۔ ’’میرے پیچھے مت چلو شاید میں رہبری نہ کر سکوں۔ میرے آگے بھی مت چلو شاید میں پیروکار نہ بن سکوں۔تم میرے ساتھ ساتھ چلو تاکہ میرے ہمقدم اور دوست بن سکو‘‘۔گویا جمہوریت ہی آج شرف انسانیت کی نگہبان ہے۔ہم آہنگی اور ہم قدمی جادہ زیست کی شان ہے۔آن ہے اور بان ہے۔یہی معراج انسان ہے، ظلِ الٰہی کا دور تمام ہوچکا ۔یہ نظام ناکام ہوچکا۔ جمہوریت کا علم بلند کرو۔اسی کیلئے جیؤ اور اسی کیلئے مرو۔