ریلی، ریلہ، رولا، رپا…
سابق صدر آصف علی زرداری اپنے فرزند بلاول بھٹو کو سیاسی اکھاڑے میں اتارنے کیلئے تیار کر رہے ہیں کیونکہ بلاول کی صورت میں پی پی کے جیالوں کو بی بی کی تصویر نظر آتی ہے اور بلاول کا اردو کا لب و لہجہ اور آواز کی کوالٹی بھی اپنی والدہ سے خاصی مماثلت رکھتی ہے اس لئے پی پی کیلئے جیالوں کے ووٹ حاصل کرنے کا طریقہ ہی تھا کہ ’’فرنٹ لائن‘‘ پر بلاول کو رکھا جائے اور زرداری خود پس پشت اپنا بھرپور کردار اد اکرتے رہیں۔ اب گزشتہ تقریباً دو انتخابات میں پنجاب نے پی پی کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اسی لئے آصف زرداری کی زیادہ توجہ پنجاب پر مرکوز ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنجاب میں فی الحال پیپلز پارٹی ایک مردہ گھوڑا ہے۔ جس میں جان ڈالنے کیلئے بہت جان مارنا پڑیگی۔ میاں برادران نے پنجاب کو تقریباًٰ پنجابیوں کے دلوں تک تسخیر کر لیا ہے جبکہ پی پی نے سندھ میں… جتنا مشکل مسلم لیگ ن کیلئے سندھ کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانا ہے اس سے کہیں زیادہ دشوار پیپلز پارٹی کیلئے پنجاب کے لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا ہے۔ ابھی دو روز قبل بلاول نے لاہور تا فیصل آباد ایک ریلی نکالی جو تقریباً فلاپ ہو گئی۔ یعنی جو سیاسی مقاصد اس سے حاصل کرنے کی بلاول کی خواہش تھی وہ نہیں ہو پائے… یہ ایک مسلسل عمل ہے جو آئندہ انتخابات تک جاری رکھا جائیگا اور آصف زرداری نے لاہور میں مستقل ڈیرے ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے باوجود ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ میاں شہباز شریف نے پنجاب کی حد تک کسی سیاسی پارٹی کی جیت کے تمام امکانات معدوم کر دیئے ہیں کیونکہ گزشتہ آٹھ برس میں میاں شہباز شریف نے خصوصاً لاہور اور عموماً پورے پنجاب کی جون ہی بدل کر رکھ دی ہے اور آنیوالے دنوں میں ترکی، چین، جرمنی، جاپان وغیرہ کیساتھ جو معاہدات پنجاب کی ترقی کیلئے طے پائے ہیں وہ بھی شروع ہونیوالے ہیں۔ جن کی تکمیل کی توقع کسی دوسری پارٹی سے کجا، کسی دوسرے وزیر اعلیٰ سے بھی نہیں کی جا سکتی، چاہے وہ مسلم لیگ (ن) ہی کا کیوں نہ ہو… زرداری لاہور میں رہنے کا شوق پورا کر لیں لیکن بقول غالب…؎
ہم نے مانا کہ رہیں دلی میں، پر کھائیں گے کیا؟
آئندہ الیکشن میں تو ہمیں پی ٹی آئی کی شکست بھی پنجاب میں صاف دکھائی دے رہی ہے۔ کیونکہ پنجاب میں اور لاہور میں بھی گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی نے قابل ذکر فتح حاصل کی تھی۔ لیکن عمران خان کی گزشتہ تین سال کی کارکردگی نے پنجابیوں کے دل کھٹے کر دیئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے تین برس جلسے، جلوسوں، دھرنوں، ریلیوں اور الزامات لگانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ حتیٰ کہ کے پی کے کی حکومت بھی عمران خان کامیابی سے چلانے میں ناکام رہے ہیں مجھے تو آئندہ الیکشن میں کے پی کے بھی مسلم لیگ ن کی جھولی میں گرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔یہاں مجھے شیخ سعدیؒ کی ایک حکایت یاد آ گئی کہ نوشیروان عادل ایک دن شکار کیلئے نکلا ہوا تھا راستے میں کچھ دیر سستانے کی غرض سے ایک باغ میں ٹھہر گیا۔ دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی اخروٹ کا درخت لگا رہا ہے۔ نوشیران نے مسکراتے ہوئے اسے پوچھا۔ بڑے میاں! اس عمر میں اخروٹ کا درخت لگا رہے ہوں جبکہ تمہارے پائوں قبر میں ہیں۔ تمہیں کیا لالچ ہے؟ بوڑھے نے جواب دیا… ہمارے بڑوں نے جو درخت لگائے ان کا پھل ہم کھا رہے ہیں۔ اب ہم بوئیں گے تو آنیوالی نسل اس کا پھل کھائے گی۔ نوشیران بولا آفرین اور چار ہزار اشرافیاں اس کو انعام میں دیں… بوڑھے نے خوش ہو کر کہا میں بھی کتنا خوش قسمت ہوں کہ درخت بوتے ہی مجھے اس کا پھل (اشرفیاں) مل گیا ہے… نوشیرواں نے پھر کہا آفرین! اور چار ہزار اشرفیاں مزید اسے انعام دیا۔ بوڑھا خوش ہو کر بولا، یہ کتنا پھل دار درخت ہے کہ ایک ہی موسم میں مجھے دو بار اس نے پھل دیا۔ نوشیروان پھر بولا، آفرین اور چار ہزار اشرفیاں پھر اسے انعام میں دیں۔گویا ہم جو بوتے ہیں ہم ہی نہیں کاٹتے بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی کاٹتی ہیں۔ تو پھر ہمیں وہ کچھ بونا چاہئیے جسے کاٹ کر ہماری نسلیں سر بلند اور سرخرو ہو سکیں نہ کہ سارے زمانے میں شرمندہ و رسوا ہوتی پھیریں۔آج ہمارا معاشرہ کرپشن، ملاوٹ، رشوت، لالچ، خودغرضی، جھوٹ، مکرو فریب، قتل و اغوائ، زنا اور انتہاء پسندی اور دہشت گردی جیسی منحوس اور قابل نفرت فصلوں سے بھرا پڑا ہے۔ جسے ہم کاٹ رہے ہیں اور یہی سب کچھ ہم بھی بوتے جائیں گے تو ہماری آئندہ نسلیں بھی یہی کچھ کاٹیں گی۔ ایسے حالات میں ہمیں اپنے اسلاف کی روایات کی طرف رجوع کرناچاہیے جن کی بنیاد ایمانداری، نیک نیتی، سچائی، قربانی، سادگی اور جاں نثاری پر استوار تھی۔ ہمارے صوفیائے کرام نے اس سلسلے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے انہوں نے اسوہ حسنہ پر چلتے ہوئے ذات پات کے تمام بتوں کو پاش پاش کر دیا۔ سب انسانوں کو یکساں انسانی حقوق دینے کی ناصرف تلقین کی بلکہ اپنے کردار سے اسے ادا بھی کیا۔ حقوق اللہ پر حقوق العباد کو ترجیع دی جیسا کہ اسلام نے ہمیں اس کا درس دیا ہے۔ فارسی کے شاعر اور صوفی بزرگ فرماتے ہیں…؎
ہزار روزہ، ہزار اتقائ، نماز ہزار
ہزار زہد و عبادت، ہزار استغفار
ہزار طاعت شب ہا، ہزار بیداری
قبول نیست اگر خاطری بیآزاری