• news
  • image

’’اقتصادی فکر اور غربت کے سائے‘‘

عالمی اقتصادی فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق 79 ترقی پذیر ممالک میں پاکستان اور چین کی معیشت کو بھارت کی معیشت پر بہتری حاصل ہے۔ ڈویلپمنٹ انڈیکس کے مطابق معاشی ترقی میں پاکستان کا 52واں اور بھارت کا 60واں نمبر بیان کیا گیا ہے۔ تاہم اِس کے باوجود بھی اگر ہم پاکستان کی اقتصادی ترقی کا جائزہ لیں تو یہ اپنے اہداف سے کہیں کم ہے۔ پاکستان میں بنائے جانے والے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے بھی معاشی پسماندگی کو دور کرنے اور عوام کی دگرگوں صورتحال میں بہتری لانے کا باعث نہ بن سکے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اقتصادی فکر جو کہ معاشرے کے لئے لازمی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم اُس سے عاری ہیں۔ اِس بات کے قطع نظر کہ اقتصادی منصوبہ بندیوں میں کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں۔ ہم اگر اصلاح اور تہہ دل سے اقتصادی ترقی کی طرف قدم بڑھائیں تو واضح تبدیلی کے روشن اقدامات موجود ہیں جس کے لئے پاکستان کو اُس "Comparitive Advantage" کی ضرورت ہے کہ جس کے تحت چمڑے کی مصنوعات، کھیلوں کا سامان، سبزیوں اور پھلوں وغیرہ کی برآمدات میں عالمی منڈی سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پر اِس حقیقت سے باخبر کرنا بھی ضروری ہے کہ بہت کم ممالک ایسے ہیں کہ جن کو اتنے شعبوں میں "Comparitive Advantage" حاصل ہے۔ جتنا کہ پاکستان مختلف شعبوں میں رکھتا ہے۔ لہٰذا اگر اسی شعبے میں ہی ترقی کر لی جائے تو پاکستان کی معیشت کو استحکام کی طرف لایا جا سکتا ہے۔ جن ممالک نے اپنی ترجیحات صرف اور صرف غربت کے خاتمے اور قومی پیداوار میں اضافے تک مرکوز رکھیں، انہوں نے بہت جلد اقتصادی استحکام حاصل کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مثلاً جنوبی کوریا، ملائیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ، تائیوان اور ہانگ کانگ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں آج سے پچاس سال قبل تک پسماندگی اور غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے مگر آج تمام مشکلات کے باوجود اقتصادی طور پر پہلے سے کہیں بہتر حالت میں ہیں۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے سیاسی مسائل میں اس قدر اُلجھے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی دوا کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ درحقیقت پاکستان جیسے کئی اور ممالک موزمبیق، بھارت، ایتھوپیا، ہیٹی، مالے، افغانستان، نائیجیریا، صومالیہ، انگولا، کمبوڈیا اور پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یا تو یہ سرحدی جھگڑوں میں اُلجھے ہوئے ہیں یا پھر اِن کے اندر سیاسی عدم استحکام، اندرونی خانہ جنگی، بیروزگاری، لاقانونیت اور اِس طرح کے سینکڑوں مسائل ہیں۔ شہریوں کو انصاف کی فراہمی اور قانون کا احترام ایسے محرکات ہیں کہ اِن پر فوری طور پر پیشرفت اقتصادی طور پر بہتری کی طرف پہلا قدم ہے لیکن شاید ہمارے ارباب و اختیار نے ہمیشہ ہی ان کو شہری کا وہ درجہ نہ دیا کہ جس کے تحت ترقی کی دوڑ میں وہ بھی آگے نکل سکیں جن کے ٹیکسوں سے اِس ملک کے ادارے چلتے ہیں۔ اِس صورتحال کے نتیجے میں ایسا معاشرہ معرضِ وجود میں آتا ہے کہ جہاں پر بدعنوانی اور ناانصافی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ اِن مسائل کا حل نئے قوانین کے نفاذ اور عدلیہ کی اصلاح کے ذریعہ ہی ممکن ہے، باقی تمام امور کو پسِ پشت ڈال کر اِن دو امور پر ہی صحیح معنوں میں کام شروع ہو جائے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ بھارت کو بھی اِس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ خوشحال اور سیاسی طور پر مستحکم پاکستان ہی اُس کے مفاد میں ہے۔ ہمسائے کی کمزوری سے وقتی طور پر تو خوش ہوا جا سکتا ہے لیکن اِس کے اثرات اپنے آنگن میں بھی آگ کی صورت میں بڑی جلدی پھیل جاتے ہیں۔ عالمی اقتصادی رپورٹ کے تناظر میں یہی بات کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کی اقتصادی ترقی ہی دونوں کو باہمی استحکام کی طرف لے جا سکتی ہے۔ پاکستان کے قدرتی وسائل کئی حوالوں سے بھارت سے بہتر ہیں مگر مزید اقتصادی حالات کی بہتری کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے اور اُس کے لئے کرپشن اور چور بازاری کا خاتمہ ازحد ضروری ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تحقیق کے مطابق پاکستان اور بھارت میں رشوت کی سطح میں معمولی فرق ہے تاہم قانون کی حاکمیت کرپشن کے خاتمے میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن