وزیر خزانہ کا شکوہ اور بالکل بجا شکوہ
میں ٹی وی بہت کم کھولتا ہوں، ابھی اسکرین آن کی ہے تو وزیر خزانہ اسحق ڈار کے الفاظ میرے دل میں تیر کی طرح پیوست ہو گئے ہیں، انہوںنے شکوہ کیا ہے کہ ترقی کا خواب پورا ہوتے دیکھ کر مخالفین کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔
اسحق ڈار نہ تو طلا ل چودھری ہیں، نہ دانیال عزیز ، وہ وزیر خزانہ ہیں اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، مگر کوئی سیاسی پیچیدگی پیدا ہو جائے تو اسے دور کرنے کے لئے وہ تیر بہدف ثابت ہوتے ہیں۔عام حالات میں ان کے پاس اس قدر کام ہے کہ ایک بار انہوںنے کسی سے کہا کہ دعا کرو کبھی اتنی فرصت نصیب ہو کہ دوستوں کو بھی وقت دے سکوں ، جس کے جواب میں ان کے ایک دوست نے کہا کہ میری بد دعا ہے کہ آ ٓپ کو اتنی فرصت نہ ملے اور آپ شب و روز اسی طرح پاکستان کی خدمت میں منہمک رہیں۔اس کے جواب میں وزیر خزانہ نے ستائشی قہقہہ لگایا۔
پاکستان کو نجانے کس کی نظر لگ گئی ہے یا اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔یہاں جب بھی پہیہ آگے کو چلنے لگتا ہے، ایک نہیں سینکڑوںر کاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔سبھی کہتے ہیں کہ جمہوریت بہترین نظام ہے مگر اب اسی جمہوریت کو ناکام بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔میثاق جمہوریت کا ثمر زرداری نے تو کھا لیا اور پاکستان کی تاریخ کے گوناں گوں اور انتہائی سنگین بحرانوں کے باوجود ایک منتخب حکومت نے آئینی ٹرم پوری کر لی۔ گو اسے ایک چیف جسٹس نے چین نہ لینے دیا مگر مسلم لیگ ن کے سربراہ میاںنواز شریف نے اپنی جمہوری ذمے داریاں پوری کیں اور وہ ہر خطرے کے سامنے تن کر کھڑے رہے۔ اب انہی نواز شریف کو مینڈیٹ ملا تو امید پیدا ہوئی کہ کم از کم پیپلز پارٹی میثاق لندن پر محترمہ بے نظیر بھٹو کے دستخطوں کی لاج رکھے گی مگر یہ پارٹی خود ہی الٹ پھیر کا شکار ہو گئی، کبھی زرداری کے ہاتھوںمیں، کبھی ان کے بچونگڑے بلاول کے ہاتھ میں ، کئی اور ہاتھ بھی متحرک دکھائی دیئے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی کی غیر مشروط اور مخلصانہ حمائت نہ مل سکی، پیپلز پارٹی شاید یہ بھی سمجھ بیٹھی تھی کہ کراچی ا ور سندھ میں فوج ا ور رینجرز کا آپریشن دیدہ دانستہ اسے ٹارگٹ بنانے کے لئے کیا گیا ہے مگر یہ سنگین غلط فہمی تھی ، ملک کو امن کی ضرورت تھی اور بیس کروڑ عوام اس آپریشن کے حامی تھے،اکیلی مسلم لیگ ن نہ تھی۔سو وجہ کوئی بھی ہو پیپلز پارٹی عہد وفا نہ نبھا سکی، ویسے بھی زرداری صاحب کا مشہور مقولہ ہے کہ وعدے قرآن حدیث کا درجہ نہیں رکھتے۔
جمہوری حکومت کو ایک ا ور بلاچمٹ گئی۔ یہ تھی تحریک انصاف جو خود بھی ایک صوبے کی حکمران تھی ، اس نے وفاق سے محاذ آرائی شروع کر دی اور میاںنواز شریف کو حکومت سے نکلوانے کے لئے کئی بار زورا ٓزمائی کی، پہلے تو الیکشن کو ہی دھاندلی قرارد یا، پھر دھرنا دے دیا ، جو کئی ماہ تک چلا،ا س دھرنے نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا اور اقوام عالم میں پاکستان کی ناک کٹو ادی۔ چین کے صدر نے ایک اہم دورے پر آنا تھا مگر دھرنے والوںنے اسلام آباد ہی بند کر رکھا تھا، ٹی وی پر قبضہ جما لیا گیا، پارلیمنٹ، عدلیہ اور وفاقی سیکرٹریٹ کے راستے بند کر دیئے گئے۔اس دھرنے سے کام نہ چلا تو بیان بازی کے نشتر سدا چلتے رہے، سیاسی ماحول کو مکدر کر دیا گیا، عوام کے ذہن ماﺅف تھے کہ کون سچا ہے کون جھوٹا، اسی ا ثنا ءمیں پانامہ کا جھگڑا کھڑا ہو گیا، جیسے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا ہو، تحریک انصاف نے پانامہ کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا، ملک اس کے شور سے گونج رہا ہے ا ورا س شور قیامت سے سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ گیا ہے حتی کہ اعلی عدلیہ کو بھی پانامہ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا، اسی پانامہ نے دنیا بھر کے ہزاروں افراد کا کچا چٹھا کھول دیا ہے مگر جو دنگل پاکستان میں ہے ، کیا مجال کسی اور ملک نے کبھی پانامہ کا نام بھی لینے کی ضرورت سمجھی ہو، پاکستان میں ہر کوئی اپنا حساب برابر کرنے کی کوشش میں ہے ، اور یہ مسئلہ پارلیمنٹ کے لئے بھی آسیب ثابت ہوا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کی ضروریات کچھ اور ہیں، ملک میں اندھیرئے چھائے تھے، ان کو دور کرنا ہے اور نواز شریف کی حکومت ایک نہیں، درجنوں منصوبے اس کام کے لئے شروع کر چکی ہے، سڑکیں بن رہی ہیں، شہروںمیں میٹرو دوڑ رہی ہے، اورنج ٹرین کے منصوبے زیر تکمیل ہیں،اور سب سے بڑا منصوبہ جو ملک کی ہی نہیں، پورے خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے، وہ ہے سی پیک ، اس پر چین نے دھڑا دھڑ کام شروع کر دیا ہے، گوادر کی بندر گاہ فعال ہو گئی ہے۔چینی قافلے رواں دواں ہیں اور باقی دنیا کو اس منصوبے سے مستفید ہونے کے لئے شرکت کی دعوت دی جا رہی ہے ، حتی کہ روس جو فوجی یلغار سے بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک نہ پہنچ سکا اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا، اسے بھی شمولیت کی دعوت دے دی گئی، کوئٹہ کے کور کمانڈر نے بھارت سے بھی کہا کہ وہ پاکستان سے دشمنی چھوڑے اور سی پیک سے فائدہ اٹھائے۔
ایک طرف یہ عظیم الشان مستقبل ہے جو ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے اور دوسری طرف اپنوں کی سازشیں ہیں جو ان منصوبوں میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں مگر آفرین ہے حکومت پر کہ وہ اس کاا ثر قبول نہیں کر رہی، اب وزیر خزانہ اسحق ڈار ہی کو دیکھ لیجئے، وہ سیاست کی طرف دھیان نہیں دیتے، ان کی ساری توجہ ملک کی مالیات، معیشت اور اقتصادیات کو بہتر کرنے پر مرکوز ہے، کشکول توڑ دیا گیا ہے، آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ د یا گیا ہے، یہ ہے وزیر خزانہ کا محیر العقول کارنامہ اور وزیر اعظم نے بھی اپنے کان لپیٹ رکھے ہیں، وہ روز مرہ کے حکومتی معمولات میں مشغول ہیں، ان دنوں جب پانامہ کا ہنگامہ آسمان کی بلندیوں تک برپاہے، تو وزیر اعظم ملکی مفادات کی خاطر ڈیووس کانفرنس میں شریک ہیں جہاں سربراہان مملکت کا جم غفیر ہے، سرمایہ کاروں کا ہجوم ہے اور ماہرین بھی اپنے تجربات کے ساتھ موقع پر موجود ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ اگلا الیکشن سر پہ ہے۔حکومت کی کوشش ہے کہ وہ زیر تکمیل منصوبوں کو چالو کرے تاکہ ا سے دوبارہ بھاری مینڈیٹ مل سکے، ان کے مخالفین نہیں چاہتے کہ ترقی ا ور خوش حالی کے یہ منصوبے کسی طور مکمل ہوں،ا س لئے پانامہ تو بہر حا ل ایک مسئلہ ہے ،اس کا شور تو مچایا ہی جا رہا ہے، یہ نہ بھی ہوتا تو محاورے کی رو سے۔۔ بیکار مباش کچھ کیا کر ، اور کچھ نہیں تو پاجامہ ادھیڑ کر سیا کر۔۔ کے مقولے پر عمل کرتے دکھائی دیتے۔
اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ جمہوری نظام میں حکومت کی تبدیلی صرف الیکشن کے بل بوتے پر ہو سکتی ہے، باقی جتن تو سب کر دیکھے، کوئی دال نہیں گلی ۔
تحریک انصاف اور جماعت ا سلامی کے پاس ایک صوبہ ہے، انہیں وہاں کوئی ا یساکام کرنا چاہیے جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ مینڈیٹ مل سکے، اورپیپلز پارٹی کے پاس زمانہ قبل از تاریخ سے سندھ کی حکومت ہے جہاں وہ دکھاوے کے لئے بھی کوئی کام نہیں کر سکی۔اگر کچھ ہوا ہے تو رینجرز اور فوج کی مہربانی اور وزیر اعظم کی بھر پور پشت پناہی سے کراچی کو سکون اور امن کا تحفہ ملا ہے۔
آخری فیصلہ عوام ہی کریں گے کہ کیا وہ سازشی سیاست کو پسند کرتے ہیںیا بقول اسحق ڈار ،ترقیاتی منصو بہ بندی اور خوشحالی کو۔ عوامی فیصلہ دیوار پر لکھا ہے، اور اندھے کو بھی نظرا ٓ رہا ہے۔