بلاول نے پنجاب کے جیالوں کو جگا دیا
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری شریف حکومت پر بڑے دھوم دھڑکے سے حملہ آور ہوئے ہیں ۔ جمعرات 19 جنوری کو پیپلزپارٹی کی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں لاہور سے فیصل آباد ریلی یقیناً طاقت کا ایک موثر مظاہرہ تھی۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی جس کا جنم نومبر 1967میں پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں ہوا۔اور جو محض تین سال بعد پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی اور انتخابی قوت بن کر اُبھری اور پھر اسی پنجاب کی طاقت سے پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے پانچ سال تک۔۔اسلام آباد پر راج کیا۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو حکومت کوجب فوجی جنرل ضیاء نے ختم کیا۔تو جیل جانے والے۔۔کوڑے کھانے والے حتیٰ کہ خود سوزی تک کرنے والے جیالوں کی تعداد سندھ سے کہیں زیادہ پنجاب کی تھی۔اور پھر بھٹو صاحب کے بعد بی بی بے نظیر بھٹو کا جلاوطنی سے واپسی پر اپریل 1986میں جو فقیدالمثال استقبال ہوا اُس کی بھی وطن عزیز کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔۔۔
1988کے الیکشن میں پیپلز پارٹی سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کی تعداد 50سے اوپر تھی۔۔مگر پھر یہی وقت تھاجب اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ نے ’’میاں نواز شریف‘‘کی صورت میں ایک ایسا طاقتور حریف کھڑا کیا۔۔۔جس نے ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لگا کر۔۔1988کے قومی اسمبلی کے انتخابات کے محض چند دن بعد ہی صوبہ پنجاب کی اسمبلی پرایسا قبضہ جمایا کہ تین دہائی بعد بھی حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کی طاقت کا سرچشمہ سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہی ہے۔یہ ساری طویل تمہید میں نے اس لئے باندھی کہ مئی 2013 کے انتخابات میں جو پاکستان پیپلز پارٹی کا سارے پنجاب سے بوریا بستر گول ہوا اُسے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا۔۔
ہمارے دوست ممتاز قانون دان اور پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما چوہدری اعتزاز احسن کی قیادت میں ایک کمیٹی ضرور بنی مگر۔۔۔ برسہا برس گزرنے کے بعد بھی اس کی Finding سامنے نہیں آئی۔ Fact Finding بہ زبانِ انگریزی بظاہر White Wash تھی کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت خاص طور پر پنجاب کی قیادت کو شرمندگی سے بچایا جائے۔ مگر ستم ہائے ستم یہ ہوا کہ پنجاب پیپلز پارٹی کی سربراہی مئی 2013 کی شرمناک شکست کے تین سال بعد بھی میاں منظور وٹو کے پاس رہی جن کا بھٹوز کی پیپلز پارٹی سے کہیں دور کا علاقہ بھی نہ تھا۔ جس طرح حکمراں جماعت ن لیگ سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کوانتخابی طور پر اپنے لئے زرخیز زمین نہ سمجھ کر کوئی اہمیت نہ دیتی رہی ہے اسی طرح پیپلز پارٹی کی قیادت بھی مئی 2013 کے الیکشن کے بعد سندھ میں خوابِ خرگوش میں جا بیٹھی۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری گزشتہ چار سال میں دبئی لندن کے سفر میں رہے۔اب جو بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے ’’ اصلی تے وڈے‘‘ قائد بن کر سال بھر سے پنجاب پر توجہ دے رہے ہیں تو یقیناً نوجوان بلاول زرداری نے اپنی والدہ بے نظیر بھٹو اور اپنے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ادراک کر لیا ہے کہ پنجاب کے بغیر پی پی نہ تو ایک قومی پارٹی بن کر اُبھر سکتی ہے اور نہ ہی 2018 میں وہ پنجاب کے بغیر اقتدار میں آنے کا خواب پورا کر سکے گی۔
ابتداء میں جو میں نے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں لاہور سے فیصل آبادریلی کا ذکر کیا تھا تو اسکی موثریت اُسی وقت دیر پا ہو گی جب نوجوان بلاول نہ صرف خود لاہور میں مستقل ڈیرہ جمائے رکھیں گے بلکہ ایک نئی تنظیم سازی کے ذریعے 70ء کی اُس پیپلز پارٹی کو زندہ کریں گے کہ جن کے جیالوں کی دوسری بلکہ تیسری پیڑھی بھی ہر قسم کی جدوجہد اور قربانی دینے کے لئے تیار ہو۔ مگر یہ سارا کچھ اُس وقت تک نہیں ہو سکتاکہ جب تک لاہور کے بحریہ ٹائون کے بلاول ہائوس میں اُنکے شب و روز کا زیادہ وقت گزرے۔ اس کے لئے تو اُنہیں موچی دروازے پر بلاول ہاوس کی کُٹیا بنانی پڑے گی۔