پاک امریکہ تعلقات اور ڈونلڈ ٹرمپ
دنیا بھر میں اس وقت ایک ہی خبر کا چرچا ہے کہ امریکہ کے 45ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اُٹھا لیا ہے۔ اب دنیا کے حالات کیسے ہونگے؟ اب دنیا یکسر بدل جائیگی۔ اسلامی دنیا کیساتھ مزید کیا سلوک ہونیوالا ہے؟ پاکستان،ایران، افغانستان ، عراق، سعودی عرب یا شام کون مستقبل میں امریکہ کا قریب ترین دوست ہوگا اور کون سخت حریف‘ چین ، روس امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینگے یا دشمن کی کم عقلی کا فائدہ اُٹھا کر اپنے مفادات حاصل کرینگے۔ امریکہ کے اندر مزید مظاہرے پھوٹیں گے یا یہ لہر دب جائیگی۔ امریکہ کی بزنس کمیونٹی کو مزید مراعات ملیں گی یا ’بزنس مین‘ ہی بزنس مین کا دشمن بن جائیگا۔ کہیں کہیں یہ تشویش پائی جارہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ غیر سنجیدہ شخصیت کے حامل ہیںجو ہر اچھے کام کی مخالفت کرتے اور برے کام کی تعریف کرنے سے باز نہیں رہتے۔ بہرحال ہیں تو امریکہ کے صدر ہی اور کم از کم چار سال تک رہیں گے۔ اورجن کا براہ راست تعلق پاکستان سے بھی ہوگا، افغانستان سے بھی ہوگا، بھارت سے بھی ہوگا اور دنیا کے ان ممالک سے بھی ہوگا جو دہشتگردی کی جنگ میں امریکہ کے نام نہاد ’’دوست‘‘ ممالک ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل مختلف ریاستوں میں مظاہرے بھی پھوٹے لیکن حالات کنٹرول میں ہی رہے اور افسردگی کے عالم میں سابق صدر اوباما اور مشعل اوباما کو وہاں سے رخصت ہوتے دیکھا گیا۔ چلو اچھا ہوا وہ چلے گئے مزید رہتے تو اسلامی دنیا کا شاید مزید بیڑہ غرق ہوتا۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا اعلیٰ ترین منصب سنبھال چکا ہے تو پاکستان کو بھی اس حوالے سے اہم ترین کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان میں کوئی نہیں جانتا کہ آئندہ چار سال دہشتگردی کے نام پر اُنکے ساتھ کیا ہوگا لیکن بہترین حکمت عملی کے تحت حکومت امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرکے مسئلہ کشمیر سمیت کئی مسئلوں میں اسکی مدد حاصل کر سکتی ہے اور کشمیر کے حوالے سے تو ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو حل کروا سکتے ہیں۔
کس قدر اتفاق کی بات ہے کہ ہمارے پڑوس میں بھارت جیسا متنازعہ ترین وزیر اعظم نریندر مودی براجمان ہے جو اپنے خالی الذہن کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتا ہے اور مشیروں وزیروں کے ذریعے حکومت چلا رہا ہے اور اب تاریخ کے متنازعہ ترین امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ براجمان ہو چکے ہیں۔ الیکشن کے دوران اسکے خیالات، تقاریر اور انٹرویوز وغیرہ کے حوالے سے عالم اسلام اور پاکستان کے حوالے سے خدشات و خطرات کا اظہار کیا جا رہا تھا ، لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ الیکشن سٹنٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ کیوں کہ شاید کسی اچھے مشیر نے ٹرمپ کو اس قسم کے یکطرفہ ’’ اظہار محبت‘‘ میں احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دے کر بہت اچھا کام اس لحاظ سے کیا تھا کہ اس خطے میں پاکستان بھی ہے جس کی ہر حال میں بڑی اہمیت ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران پاکستان اور اہل پاکستان کے بارے میں جن جذبات کا اظہار کیاگیا وہ اسکے انتخابی مہم کے دوران خیالات سے بالکل الگ تھے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کی شخصیت میں سلور لائینگ موجود ہے اور اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر پاکستان کی وزارت خارجہ اپنی پالیسیاں ایسی بنیادوں پر تشکیل دیں جس میں خودی کو ایک اہم مقام حاصل ہو اور اس اہم محکمہ میں ایسے افراد ہوں جو دلیل ومنطق اور ایمانی قوت سے مسلح ہو اور ٹرمپ کے سیکرٹری سٹیٹ وغیرہ سے خودد اری کے ساتھ بات کر سکیں۔ ٹرمپ سے اگر پاکستان تین چار اہم باتیں بنوانے میں کامیاب ہو جائے تو جنوبی ایشیا میں بہت بڑا انقلاب آجائیگا۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ ٹرمپ کو قائل کرنے کی کوشش کی جائے کہ ایشیا میں مسئلہ کشمیر دنیا کے امن کیلئے فلش پوائنٹ ہے لہٰذا اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل در آمد کروایا جائے۔ اس طرح آپ دنیا میں امن کے قیام کے حوالے سے عالمی ہیروکا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ٹرمپ کو بتایا جائے کہ پاکستان نے آج تک امریکہ کی دوستی میں بہت بڑا خسارہ اُٹھا یا ہے لیکن امریکہ نے کبھی بھی پاکستانی عوام کی خواہشات کے مطابق پاکستان کی دوستی کا حق ادا نہیں کیا ہے لہٰذا اب موقع ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی طرف سے کفارہ ادا کرتے ہوئے پاکستانی عوام میں امریکہ کی قبولیت اور مقبولیت کیلئے کام کرے۔
پاکستان امریکہ کو باور کروائے کہ طالبان پاکستان ، روس ، چین اور دیگر متعلقہ ملکوں اور عناصر کے ساتھ مل کر مذاکرات شروع کرے تا کہ اس مسئلہ کو حل کیا جا سکے جس سے دنیا کا امن وابستہ ہے۔ افغانستان میں امن کیساتھ بھارت اور پاکستان میں بھی تعلقات بہتر ہونگے اور سی پیک سے خطے کے سارے ممالک استفادہ کر سکیں گے۔ یوں امریکہ کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ دنیا میں امن کے قیام کے حوالے سے امر ہو جائینگے۔
میرے خیال میں اگر اس موقع پر پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی آڑے آئی تو یقینا پاکستان کیلئے یہ ایک برُی خبر ہوگی۔ دنیا جانتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا جھکائو بھارت کی طرف ہے لیکن ہمیں اس جھکائو کو بدلنا ہوگا ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم اور اسکے بعد انتقال اقتدار کے مرحلہ میں پاکستان کے مقابلہ میں بھارت کوترجیح دی تھی۔ یہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ضرور ہے لیکن امریکہ کو پاکستان کی علاقائی اہمیت و حیثیت کا ادراک کرتے ہوئے اپنی ترجیحات میں شامل رکھنا پڑیگا اور پاکستان کو اپنے اندرونی مسائل سے نکل کر باہر نکل کر دیکھنا ہوگا کہ دنیا بالکل بدل رہی ہے اور اس بدلتی دنیا میں پاکستان کہاں کھڑا ہے اور اُسے آگے کیا کرنا ہے۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہار کیا ہے تو اس حوالے سے پاکستان کو چاہئیے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسکی حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائے اور انکے ذریعے انڈیا کے ساتھ الجھے مسائل بشمول مسئلہ کشمیر حل کرائے تاکہ خطہ میں امن یقینی ہو اور انڈیا سمیت خطہ کے تمام ممالک CPEC کی معاشی فوائد سے مستفید ہو سکیں یا کم از کم بھارت پاکستا ن میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے سے باز رہے۔