ملتان میں شاہ محمود قریشی کا موٹرسائیکل پر بیٹھ کر اپنے حلقے کا دورہ۔
واہ جی واہ کیا بات ہے۔ اب مخدوم بھی خادموں سے ملنے کے لئے پالکیوں اور مرسڈیز کو چھوڑ کرعوامی سواری یعنی موٹرسائیکل پر آ گئے ہیں۔ یہ ڈرامہ بازی اس دو رنگی سیاست میں بارہا کرنا پڑتی ہے۔ شاہ جی نے بھی کہیں شیخ رشید کے کمیٹی چوک والے ڈرامے سے متاثر ہو کر تو نہیں یہ موٹرسائیکل والا کردار چن لیا۔ ملتان اولیا کا شہر ہے یہاں کے ایک مخدوم جب موٹرسائیکل پر گرد آلود ملتان کی سڑکوں پر نکلے ہوں گے تو کیا انہیں احساس نہیں ہوا ہو گا کہ برسوں سے وہ اور انکے آباؤاجداد اس شہر پر حکومت کرتے آئے ہیں۔ مگر آج بھی اس شہر کی حالت نہیں بدلی وہی فارسی والا شعر آج صدیوں بعد بھی اس شہر پر صادق آتا ہے؎
چہار چیز است تحفۂ ملتان
گرد‘ گرما‘ گدا و گورستان
اگر کچھ نیا پن اس میں آیا ہے تو وہ صرف سوہن حلوہ ہو سکتا ہے یا ملتان کی میٹرو ٹرین اور کچھ نہیں۔ شاہ صاحب کے اپنے حلقے کا جو حال ہے وہ ابھی تک ویسا ہی بدحال ہے۔ آج وہ موٹرسائیکل پر بیٹھ کر کارکنوں سے مل رہے ہیں تو انہیں پتہ چل رہا ہو گا کہ برس ہا برس سے انکی حکومت کے باوجود انکے حلقے کی حالت ویسی ہی کیوں ہے۔ اگر وہ حلقے کے ترقیاتی فنڈز ہی یہاں خرچ کرتے تو آج یہاں کی حالت بدلی ہوتی۔ اب ایک بار پھر وہ سب سے وہی جھوٹے وعدے کرتے پھریں گے کہ اگلی بار منتخب ہوا تو یہ مسائل حل کروں گا۔
٭٭٭٭٭٭
سندھ اسمبلی میں ’’موسم ہے عاشقانہ‘‘ نے جنگ چھیڑ دی۔
سندھ اسمبلی میں اجلاس کے دوران جس طرح وزیربرائے ورک اینڈ سروسز امداد پتافی نے اپنے غلط انگلش بولنے کا مذاق اڑائے جانے اور انہیں انگلش ہی میں جواب دینے پر مجبور کرنے والی ایم کیو ایم کی ممبر اسمبلی نصرت سحر عباسی کو جل بھن کر ذومعنی جملوں میں جواب دیا اس پر سندھ اسمبلی میں مچھلی مارکیٹ والا ماحول پیدا ہو گیا اور کان پڑی آواز سنائی نہ دی۔ ڈپٹی سپیکر شہلا رضا نے اپنی طرف سے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ وزیراعلیٰ بھی اجلاس میں موجود تھے مگر وہ بھی ہنس دیئے‘ چپ رہے‘ شاید مقصود تھا پردہ کسی کا یا شاید اس ہنگامہ میں انہیں بھی مزہ آ رہا تھا۔ نصرت سحر عباسی نے سوال کا جواب انگلش میں دینے کا کہا تو پتافی صاحب نجانے کیوں فنا فی الموسم ہو گئے اور موسم ہے عاشقانہ کا ذکر کر کے انہوں نے جو کچھ اپنی زبان سے ادا کیا وہ ہماری اسمبلی روایات اور پارلیمانی زبان سے سو درجہ نچلی گری ہوئی زبان ہے۔ اس پر نصرت سحر عباسی نے بھی پتافی صاحب کو گھریلو خواتین کے نام لیکر چیمبر میں بلانے کا مشورہ دیکر دل کی بھڑاس نکالی۔ اس سے بھی ایوان کا ’’تقدس‘‘ مجروح ہوا ہوگا۔ یہ ارکان اسمبلی جو اس ایوان میں بیٹھتے ہیں انہیں ازخود اس ایوان کے تقدس و احترام کا خیال کیوں نہیں۔ زبان و بیان اور لب و لہجہ ہی تو انسان کو آسمان پر چڑھاتا ہے اور زمین پربھی دے مارتا ہے۔ یہ لوگ بات کرتے ہوئے اس طرف دھیان کیوں نہیں دیتے۔
سب سے پہلے امریکہ۔ ٹرمپ کا اعلان
خوشی کی بات ہے کہ نئے امریکی صدر تو ہمارے سابق صدر مشرف کی پالیسی اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اب اس سے بڑھ کر ہمارے لئے فخر کا مقام اور کیا ہو گا کہ مخالفین ہمیں امریکہ کی تابعداری کا طعنہ دیتے ہیں اور آج اسی سپر طاقت کے صدر ہمارے سابق جرنیلی صدر کے نعرے (سب سے پہلے پاکستان) کی ٹیون پر سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ پرویز مشرف نے تو اپنے اس نعرے کا مطلب یہ نکال لیا تھا کہ سب سے پہلے پاکستان کو ہر جگہ قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا جائے۔ جس کا نتیجہ کافی عرصہ تک سارا پاکستان بھگتتا رہا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ ان کے دور حکومت سے عوام کو نجات ملی ورنہ سب سے پہلے پاکستان کا جو حشر نشر ان کے دور سے شروع ہوا تھا وہ آج بھی ہو رہا ہوتا۔
امریکی صدر نے اگر سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگایا ہے تو وہ نئی بات نہیں۔ ویسے بھی تو ہر جگہ سب سے پہلے ہر کام میں امریکہ کا ہی نمبر اور نام آتا ہے۔ ویسے نئے امریکی صدر اپنے بیانات سے مکمل طور پر نیشنلسٹ نظر آتے ہیں۔ امید ہے وہ واقعی دنیا بھر سے پنگے لینے کی بجائے اپنی تمام تر توجہ امریکہ کے حالات اور معاملات درست کرنے پر دیں گے۔ اس بہانے چلو کچھ عرصہ دنیا بھر کو امریکی مداخلت بے جا سے نجات ملے گی۔ اب دیکھنا ہے امریکی پالیسی ساز ادارے کس حد تک صدر موصوف کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں اور کب تک خود کو دیگر ممالک کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے باز رکھتے ہیں…
٭٭٭٭٭٭
سینئر اہلکاروں سے تنگ آ کر پاکستان آنے والے فوجی کو بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔
یہ بھارتی فوجی چندو لال بھارتی فوج کے سینئر افسران سے تنگ آکر سرحد عبور کر کے جان ہتھیلی پہ رکھ کر پاکستان آ ہی گیا تھا تو چھان پھٹک کے بعد اسے مہمان بنا لیا جاتا۔ آخر بھارت بھی تو ہمارے بے شمار بھگوڑوں کو جی جان سے پناہ دیتا ہے۔ جو وہاں رج کے بھارتی زبان میں ہمارے خلاف واہی تباہی بکتے ہیں۔ اگر اس بھولے بھٹکے فوجی کو واپس کرنا ہی تھا تو صرف دوستی اور انسانیت کے نام پر ہی واپسی کا راستہ کیوں بنایا گیا۔ بھارت کب ایسی زبان سمجھتا ہے۔ اگر ہمارا کوئی فوجی جوان بھولے بھٹکے سے بھارت والوں کے ہاتھ لگا ہوتا تو وہ انسانیت اور دوستی کو چولہے میں ڈال کر اس کے ساتھ جو سلوک کرتے وہ ہمیں مدتوں بھلائے نہ بھولتا۔ اپنے کئی جوانوں کی زخموں سے چور تشدد زدہ نعشیں ہم نے پرنم آنکھوں سے وصول کی ہیں۔ اگر یہ جوان واپس کرنا ہی تھا تو بے شک اسے اسی طرح تحفے تحائف سے لاد کر واپس کرتے مگر اسکے جواب میں بھارت میں بند کسی شہری کو واپس لایاجاتا۔ اور نہیں تو کم از کم براہمداغ بگٹی کی ہی واپسی مشروط کی جاتی۔ آخر بھگوڑے کے بدلے میں بھگوڑے کی بارگیننگ کہاں ممنوع ہے۔ ویسے ہمیں ترس آ رہا ہے اس بے چارے پر۔ اب بھارت والے اس کا جو حشر کریں گے وہ یہ خود بھی نہیں جانتا۔ اس واپسی سے تو بہتر تھا کہ اسے یہاں ہی قید رکھتے… کم از کم بے چارے کی جان تو بچی رہتی…