اب کرپشن محض ایک سیاسی نعرہ نہیں
”وزیراعظم پانامہ کیس میں بری ہو سکتے ہیں لیکن باعزت بری نہیں ہو سکتے“۔ عمران خان نے یہ کہتے ہوئے میاں نواز شریف کی بریت کا اندیشہ ظاہر کر دیا۔ میاں نواز شریف کے موجودہ وکیل لنکنز ان لندن کے بیرسٹر مخدوم علی خاں ہیں۔ چوٹی کے ان پاکستانی بیرسٹر کیلئے لندن کے ایک بیرسٹر کا واقعہ۔ لندن میں چوری کے ایک مقدمہ میں ایک بیرسٹر کی خدمات حاصل کی گئیں۔ بیرسٹر نے پوری محنت سے اپنے موکل کا مقدمہ لڑا۔ وہ اسے بری کروانے میں کامیاب ہو گیا۔ کمرہ عدالت سے بریت کا فیصلہ سن کر چور باہر نکلا۔ اب اس نے شکریہ ادا کرنے کیلئے اپنے بیرسٹر کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ بیرسٹر یہ کہتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میں تمہیں ٹیکنیکل گراﺅنڈز پر عدالت سے بری کروانے میں کامیاب ضرور ہو گیا ہوں لیکن اس طرح تم اتنے باعزت بھی نہیں ہو گئے کہ ایک بیرسٹر سے ہاتھ ملا سکو۔ لندن اور پاکستان کے موسم اور لوگوں کے مزاج میں بہت فرق ہے۔ یہاں آکر بندے کو ازبر ٹریفک لاز تک بھول جاتے ہیں۔ ہمارے بیرسٹر یہاں ملزمان سے گلے ملتے اور ”لڈو پیڑے“ مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ سابق گورنر چوہدری محمد سرور کو پاکستان پہنچ کر اپنی بھولی بسری ارائیں برادری تک یاد آگئی۔ اب تحریک انصاف میں سبھی ارائیں انہیں ”پج“ کے ملتے ہیں۔ پھر دونوں ارائیں اک دوجے کی طرف دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ راجپوت مغل عہد سے ہی دربار داری سے خوب آگاہ ہیں۔ رانا ثناءاللہ کہتے ہیں ”اگر عدالت نے میاں نواز شریف کو ملزم ٹھہرا دیا تو عوام یہ فیصلہ ہرگز نہیں مانیں گے“۔ قصوری درویش نے ”تیتھوں بازی لے گئے“ کی خبر سنا کر صرف وفاداری کو اولیت بخشی تھی۔ ہر قیمت پر وفاداری، بھوک ننگ میں بھی مرشد کا دروازہ نہ چھوڑنے کا وطیرہ۔ لیکن یہاں اقتدار کے ایوانوں میں موج میلہ ہو رہا ہے۔ بھوک کا ادھر سے گزر نہیں۔ ہندوستان صرف ترقی نہیں، بھوک میں بھی ہم سے آگے ہے۔ وہاں فٹ پاتھوں پر رات کو گھر بستے ہیں۔ ادھر سے آواز آئی ہے:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
پاکستان میں ایسی کوئی آواز نہیں۔ تین برسوں میں 33 کھرب 73 ارب قرضہ لیا گیا۔ عوام ابھی مست ہیں۔ پانی کا کال پڑنے والا ہے لیکن ابھی عوام مست ہیں۔ ابھی ایسا ہی دکھائی دیتا ہے کہ شاید یہ ملک صرف سیاستدانوں کیلئے ہی بنایا گیا۔ پاکستان میں الیکشن Manage کرنا ایک فن ہے۔ اس کا امیدوار کی مالی، اخلاقی کرپشن سے کم ہی تعلق ہے۔ جعلی ڈگری، بینک قرضوں کی معافی، ووٹر ایسی کسی خرافات کا کوئی نوٹس لینے کو قطعاً تیار نہیں۔ وہ اسے سیاست کا لازمہ سمجھے بیٹھے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ن لیگ کے پاس الیکشن Manage کرنے والے بہتر امیدوار موجود ہیں؟ اسی طرح سندھ میں بہتر امیدوار پیپلزپارٹی کے پاس ہیں۔ پنجاب کی 148 قومی اسمبلیوں کی نشستوں میں سے 100 کے لگ بھگ مکمل یا جزوی طور پر دیہاتی ہیں۔ ذات پات، برادری بندھن اور دھڑے بندیوں سے ابھی ہمارے شہر نہیں نکل سکے پھر دیہات آخر دیہات ہوتے ہیں۔ جب رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ عوام میاں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ نہیں مانیں گے تو ان کی عوام سے مراد یہی لوگ ہیں۔ یہی سکہ بند سیاست پیشہ امیدوار جسے دوسرے تیسرے درجہ کی اہم سیاسی جماعت کا ٹکٹ مل جائے وہ الیکشن ہارنے کے بعد بھی اپنے نام سے ٹکٹ ہولڈر کا دم چھلا اتارنے کو تیار نہیں۔ بار بار الیکشن جیتنے ہارنے کے بعد ان لوگوں نے اپنے لئے مضبوط حدبندیاں بنالی ہیں۔ علاقائی اور نسلی تعصب کو اور گہرا کر لیا ہے۔ جہاں کہیں فرقہ ورانہ جذبات کی ضرورت پیش آئے، انہیں بھی برت لیا جاتا ہے۔ برادری بندھن کا دھاگہ دوہرا تہرا کر کے اور مضبوط کر لیا گیا ہے۔ پھر لوگوں کے مخصوص مفادات ان لوگوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ اپنے مفادات کی خاطر یہ لوگ لڑنے مرنے کیلئے ہر دم تیار رہتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی المیہ بھٹو پارٹی کی موت ہے۔ آج کی پیپلزپارٹی فوج کا وہ آخری دستہ ہے جو فتح ہو یا شکست صرف ملبہ اور نعشیں اٹھانے کیلئے ہوتا ہے۔ بلاول چند جیالوں کو گھر سے نکالنے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں لیکن وہ عوام کو کیسے نکالیں گے۔ بات روٹی، کپڑا اور مکان سے بڑھ گئی ہے۔ ہمارے کرپٹ ٹھیکیداروں، افسر شاہی، ممبران اسمبلی کی کمیشنوں نے چوتھا مسئلہ پانی کی آلودگی بھی پیدا کر دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی نے روٹی، کپڑا اور مکان کے مسئلے کو کچھ اور بھی گھمبیر کر دیا ہے۔ ادھر بلاول بھٹو اسلامی سوشلزم سے سوشل ڈیموکریسی کی طرف چلے آئے ہیں۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ شاید اس کا مطلب پجارو سوار، منرل واٹر کی بوتل اور خوشحال چمکتے دمکتے چہروں کے ساتھ دو انگلیوں سے بنایا ہوا وکٹری کا نشان ہی رہ گیا ہے۔ آج پاکستان کی اہم سیاسی جماعتوں میں مزدوروں، کسانوں کی کوئی آواز نہیں۔ اگرچہ انگریزی ناول نگار چارلس ڈکنز نے مضافات کی آبادیوں کو جرم اور منشیات کے گڑھ قرار دیا تھا لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ غریب غرباءکو شہروں کے مضافات میں سستی رہائشی سہولتیں میسر آجایا کرتی تھیں۔ ہمارے ٹاﺅن ڈویلپروں نے مضافات کو بھی شہروں میں شامل کر دیا ہے۔ وہ غیرآباد رہائشی کالونیوں میں بھی پانچ مرلہ پلاٹ کی قیمت 30 لاکھ سے اوپر لے گئے ہیں۔ اب دس پندرہ ہزار مہینے کا مزدور پانچ مرلے پلاٹ کا خواب بھی دیکھے تو اس کی نیند سے آنکھ کھل جاتی ہے۔ میاں نواز شریف باعزت بری ہوتے ہیں یا محض شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بری ہوتے ہیں، یہ شریف فیملی کیلئے بے معنی ہو چکا ہے۔ اب وہ محض پانامہ موڑ سے جلدی سے گزر جانا چاہتے ہیں۔ میاں فیملی سیاست کو کاروبار کے طور پر چلا رہی ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہے۔ قرضے ملک کے بڑھ رہے، اثاثے میاں فیملی کے بڑھ رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی والے عدنان رندھاوا سول سروس چھوڑ کر ان دنوں پیشہ وکالت میں موجود ہیں۔ انہوں نے منٹو کے سے سفاک قلم کے ساتھ اپنا تازہ کالم لکھا ہے۔ ”زندگی کے غائب صفحے“ کے عنوان سے لکھے اس کالم میں وہ کسی سیاستدان، بیوروکریٹ، جرنیل، مولانا، تاجر اور صنعتکار کی زندگی کی کتاب مکمل نہیں سمجھتے۔ میاں نواز شریف نے اپنی زندگی کو کھلی کتاب قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس ہیں کہ اس میں سے کچھ صفحات غائب ہیں۔ کالم نگار ہارون الرشید نے یہی بات ”باسٹھ تریسٹھ کی بکواس“ کے نام سے ایک اور انداز میں کہی تھی۔ سپریم کورٹ میں میاں نواز شریف کے خلاف کچھ بھی فیصلہ ہو، باعزت بریت، بریت یا نااہلی۔ اہم بات یہ ہے کہ عمران خان نے سیاست کے بازار میں کرپشن کے خلاف نعرہ مستانہ بلند کیا ہے۔ الیکشن دھاندلی اور مالی کرپشن ہمارے سیاسی نصاب میں نئے الفاظ نہیں لیکن یہ کریڈٹ عمران خان کو ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے ان لفظوں کو محض سیاسی نعرہ نہیں رہنے دیا۔ جیسے کبھی میاں شہباز شریف، آصف زرداری سے کرپشن کے پیسے نکالنے کی بات کیا کرتے تھے۔ اب سب اسے بھول بھلا چکے ہیں۔ میاں شہباز شریف بھی، آصف زرداری بھی اور ہمارے عوام بھی۔