علی گیلانی کا مولانا فضل الرحمن پر عدم اعتماد
حریت کشمیر کی جدوجہد پانچ دس سال کا قصہ نہیں یہ پون صدی پر محیط خاک و خون پر مشتمل داستانوں، اذیتوں اور بربریت کی ہزار کہانیوں پر مشتمل جنگ آزادی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس کی ابتداء1931ءسے ہوئی اور آج بھی جاری ہے۔ جنت نظیر کشمیر کے سرفروشان اسلام برہمن ازم کے صدیوں پر محیط اکھنڈ بھارت کے خواب کو اپنے لہو کی آبیاری سے ملیا میٹ کئے ہوئے ہے۔ وادی کشمیر اپنے سرسبز پہاڑوں گل و گلزار نظاروں حسین جھرنوں اور آبشاروں کے علاوہ اپنے جغرافیائی محل و قوع کے باعث ایک خاص اہمیت کا خطہ ہے۔ جس کے ایک جانب واہ خان کا علاقہ روس سے جدا کرتا دکھائی دیتا تو شمال مشرق میں عظیم مملکت چین واقع ہے جو آٹھ سو کلومیٹر کی طویل شاہرائے ریشم کے ذریعے پاکستان سے منسلک ہے ۔ جنوب میں بھارت اور مغرب میں سات سو کلومیٹر طویل سرحدی دامن پاکستان کی طرف کھلتے ہیں لہذا کشمیر اور پاکستان ایک قدرتی اٹوٹ رشتے سے منسلک ہونے کے علاوہ مذہب اور ہن سہن میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے لہٰذا کشمیری بھائیوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی سطح پر مدد، ملت پاکستانیہ ہر پیرو جواں کا دینی فریضہ ہے کیونکہ وہاں لڑی جانے والی جنگ الحاق پاکستان کی جدوجہد ہے۔ مقبوضہ کشمیر تقسیم ہند کے طے شدہ ایجنڈے کا وہ حصہ ہے جس میں بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث اور اقوام متحدہ میں استصواب رائے کی قراردادوں کی منظوری کے باوجود عمل درآمد نہ ہو سکا مگر کشمیریوں نے شمع حریت کو اپنے خون سے روشن و تاباں رکھا۔ ہر دور میں جرات و استقامت کے عظیم ثبوت پیش کئے۔ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ خصوصاً شہید برہان وانی کے لہو کے شراروں نے ایک جانب بھارتی سینا کے عزم و ارادے بھسم کئے جو اپنی ہی حکومت کے خلاف آہ و فگاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب کشمیر کے ہر پیرو جواں کے حوصلے توانا اور دلوں کو شوق شہادت سے معمور اور مسرور کر دیا۔ مقبوضہ وادی میں سات ماہ پر مشتمل کرفیو میں پاکستانی سبز ہلالی پرچم بلند ہونا دنیا پر باور کر رہا ہے کہ کشمیر پر بھارت کی حکومت نہیں صرف تسلط ہے۔ اس امر کا اعتراف تو بھارت کے سابق وزیر خارجہ ایشونت سہنا کی قیادت میں ایک ماہرین کے وفد نے بھی وادی کے دورے کے بعد کیا۔ وفد کے بیان کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں طاقت کے بے دریغ استعمال نے کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں موت کا خوف نکال دیا ہے۔ اگر دہلی نے موجودہ حالات کا ادراک نہ کیا تو مقبوضہ کشمیر کے حالات بھارت کے لئے بہت جلد تباہ کن ثابت ہوں۔ خوفناک نتائج موجودہ اور آئندہ سال 2018ءتک نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اعلیٰ اختیارتی وفد کے دورے کے دوران بھی نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم عام دکھائی دیتا تھا۔ رپورٹ میں درج ہے کہ بھارت کے حکمران کشمیر کو ایک سیاسی مسئلہ تسلیم کرنے کےلئے زہنی طور پر تیار نہیں۔ وفد کے ارکان کا کہنا ہے کہ ہم جس کشمیری کو بھی ملے وہ مسئلے کے حل کا خواہاں نظر آیا۔ کیونکہ حل کے بغیرآگ و خون کا طوفان رکنے والا نہیں۔ وفد کے مطابق مقبوضہ وادی کے ہر مرد و زن میںبھارتی حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک کا احساس سرایت کر چکا ہے ۔ علاوہ ازیں بھارت کے بے شمار اعتدال پسند رہنما بھی اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ کشمیری عوام پر مظالم ڈھانے سے بھارت کے دوسرے حصے بھی انتشار کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
وادی کے مرد و زن کا جذبہ حریت آج جس بام عروج پر ہے اس کا سہرا باصلاحیت ایمان افروز حریت قیادت خصوصاً بزرگ مکرم سید علی گیلانی کی حکمت و فراست کو جاتا ہے۔ جن کے طرز عمل کے باعث ایک جانب بیرونی دنیا بھارتی حکومت کو تنبیہ کرتی نظر آتی ہے تو دوسری طرف بھارت کے اندر کشمیریوں کے لئے ہمدردی کے جذبات جنم لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ہمہ جہد تحریک میں پاکستان کا کردار ناقابل فراموش ہے مگر علی گیلانی کا پاکستانی پارلیمانی کشمیر کمیٹی پر تنقید پاکستانی حکومت اور قوم کے لئے کلنک سے کم نہیں۔ قائد حریت سید علی گیلانی کا پاکستان قومی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کو برطرف کرنے کا مطالبہ بروقت بھی ہے اور حقیقت پسندانہ بھی۔ کیونکہ مولانا محترم کا ماضی پس منظر اس عظیم مشن سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا ماضی دو قومی نظریے کے شدید مخالفین کا عکاس ہے۔ مولانا کی تعیناتی ہی قوم اور مشن کے ساتھ مذاق کے مترادف تھا یا کسی فرمائش کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کشمیر کمیٹی کا بجٹ کسی بھی قائمہ کمیٹی سے بہت زیادہ ہے۔ گذشتہ سال ان کے لئے چھ سو ملین بجٹ مختص کیا گیا۔ جناب چیئرمین کو 1300CCکا ر کے ساتھ 360لٹر ماہوار پٹرول کے علاوہ منسٹر کالونی میں باوقار اور شاندار رہائش بھی پیش کی گئی۔ اس مقدس کمیٹی کے 38ارکان کی تنخواہوں کا بجٹ 50.814ملین بتایا گیا۔ ان کی کارکردگی میں صرف تین میٹنگ اکیس پریس سٹیٹمنٹس کا اجراءباقی غیر ملکی سیر سپاٹوں پر خرچ ہوا۔ مولانا آٹھ سال سے مستقل اس مقدس مسند پر برجمان ہیں مگر جو تیزی طراری اور آنیاں جانیاں ان کی قومی سیاست میں دکھائی دیتی ہیں وہ ہوشیاریاں اور چابک دستیاں بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی نظر نہیں آتیں۔ یہی اعتراض سید علی گیلانی اور کشمیریوں کا ہے اور یہی سوال ہر پاکستانی کے لب پر ہے۔
قارئین کرام! کشمیر قائمہ کمیٹی 90کی دہائی میں ان مقاصد کے حصول کےلئے بنیں تاکہ کشمیر کے الحاق پاکستان کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لئے بھارت سمیت تمام عالم کو قائل کیا جائے۔ اخلاقی و سفارتی سطح پر ہر خلا کو پُر کیا جا سکے۔ اس کمیٹی کے پہلے چیئرمین حامد ناصر چٹھہ، چوہدری سرور، نواب زادہ نصراللہ خان اور مولانا فضل الرحمن بنے۔ آخری دو کا ماضی قیام پاکستان کے حوالے سے منفی تھا۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی اہم اور حساس ترین ذمہ داری کے لئے ان حضرات کے نام کس حلقہ فکر سے تجویز ہوئے اور کس قیمت پر تعیناتی ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کشمیر کمیٹی کی موجودگی میںکشمیریوں کا الحاق پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا؟ حالانکہ ہماری پارلیمنٹ میں راجا ظفر الحق، سر انجام خان، پیر صدرالدین راشدی، شیخ رشید اور برجیس طاہر جیسے ارکان بھی موجود ہیں۔