• news
  • image

بھارتی آبی جارحیت اور ڈیموں کے مخالفین کا انجام

فورٹ عباس ضلع بہاولنگر کے حوالے سے ایک خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے کہ نہر ی پانی میسر نہ آنے کی صورت میں 7 دیہات کا پانچ ہزار ایکڑ رقبہ بنجر ہوچکا ہے۔ زیر زمین پانی بہت گہرا اور کڑوا ہوچکاہے جس سے اس علاقے کی 40 فیصد آبادی نقل مکانی کرچکی ہے ۔انسان اور جانور بوند بوند کو ترس کر ہلاک ہورہے ہیں۔یہ خبر تو اس علاقے کی ہے جہاں کبھی دریائے ستلج بہتا تھا ۔ بھارت کے حصے میں آنے کے بعد صرف سیلاب کے دنوں میںہی ستلج میں پانی آتا ہے وگرنہ سارا سال خشک ہی رہتا ہے ‘ جو نہریں اس علاقے کو سیراب کرنے کے لیے نکالی گئی تھیں وہ بھی خشک ہوچکی ہیں۔ راوی ، ستلج اوربیاس تو بھارت نے پہلے خشک کردیئے ۔اب چناب جہلم اور سندھ کے پانی کے درپے ہے۔جس کا اعلان ببانگ دہل بھارتی وزیر اعظم کرچکے ہیںکہ ”پاکستان پانی کی بوند بوند کو ترسے گا۔“اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پنجاب کا 75 فیصد علاقہ دریائی پانی میسر نہ ہونے کی بنا پر اپنی ذرخیزی تیزی سے کھوتا جارہا ہے جبکہ پاکستانی حکمران کبھی امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی ورلڈ بنک کی طرف۔ نواز شریف جس جذبے اور ولولے سے اقتصادی راہداری پر کام کررہے ہیں اسی توجہ اور انہماک کے ساتھ بھارت کے ساتھ دو ٹوک بات کرنے کی ضرورت ہے۔ سرحدوں کادفاع تو پاک فوج بخوبی کررہی ہے۔ پانی کے محاذ پر ہماری لاپروائی اور خاموشی مجرمانہ حد تک پہنچ چکی ہے۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ صرف پنجاب ہی نہیں صوبہ سندھ کا 50 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ خشک سالی کا شکار ہوچکا ہے جس میں تھرپارکر، عمرکوٹ، سانگھڑ، خیرپور اور گھوٹکی کے علاقے شامل ہیں۔اسی طرح بلوچستان کے علاقے جن میں چاغی ، خاران ، گوادر ، لسبیلہ ، ژوب اور لورالائی شامل ہیں‘ یہ علاقے 26ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہیں یہاں دریائی پانی کھیتوںکو سیراب نہیں کرتا ہے ۔مون سون کے موسم میں جب بارشیں ہوتی ہیں تو وہ سیلاب کی شکل اختیار کرکے کھڑی فصلوں کو بہاکر لے جاتے ہیں اور بارش کا پانی سمندر میں جاگر ضائع ہوجاتاہے۔اعداد و شمارکے مطابق صرف دو سالوں میں پانی کی قلت سے سب سے زیادہ تباہی بلوچستان میں ہوئی جبکہ سندھ اور پنجاب کانمبر بعد میں آتا ہے ۔ بالحاظ مجموعی اب تک پاکستان کے 58 اضلاع میں قدرتی آفات اور پانی کی شدید قلت کے باعث 30لاکھ انسان متاثر اور 25 لاکھ مویشی ہلاک ہو چکے ہیں ۔ کالا باغ ڈیم کی جن سیاست دانوںنے مخالفت کی تھی اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ سب پاکستان کے بدترین دشمن اور بھارت کے پٹھو ہیں اور انہی کے مفادات کے لیے اب بھی کام کررہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم سمیت اس جیسے درجنوں ڈیم بنانے کا آغاز کردینا چاہیے۔ بطور خاص ان علاقوں میں جہاں موسم برسات میں شدید ترین سیلاب آتا ہے اور بستیاں اور کھیتوںمیں کھڑی فصلیں برباد ہوجاتی ہیں ۔ان علاقوں میں سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کرنا بہت ضروری ہے ۔ دریاستلج جس میں اب پانی صرف موسم برسات میں ہی آتا ہے اس دریا کے صحرائی علاقوں میں اگر تین چار ڈیم تعمیر کرلیے جائیں توبرسات کا پانی ان ڈیموںمیں محفوظ کیا جاسکتا ہے ۔ تو مقامی علاقوں میں کسی حد تک پانی کی کمی پوری ہوسکتی ہے۔ اسی پانی کو ٹریٹ منٹ پلانٹ کے ذریعے مقامی آبادی کے لیے پینے کے قابل بھی بنایاجاسکتا ہے ۔یہی حکمت عملی دریائے راوی ،دریائے چناب اور دریائے بیاس کے حوالے سے وضع کرنا بہت ضروری ہے ۔سندھ کا سیاست دان ہو یا خیبر پختوانخواہ کا جو بھی ڈیموںکی مخالفت کرے یا اخبارات میں بیان جاری کرے ، اسے ملک دشمن ڈیکلر کرکے اسی ڈیم میں زندہ پھینک دیا جائے۔ آئندہ کوئی شخص مخالفت کرنے کی جرا¿ت نہیں کرے گا ۔بھارت اگر نام نہاد سرجیکل سٹرائیکس کی مخالفت کو ملک سے غداری قرار دے سکتا ہے تو پاکستان میں ڈیموں اور اقتصادی راہداری کی مخالفت کرنے والوں کو غدار کیوں قرار نہیںدیا جاسکتا ۔ موسم برسات میں لاکھ کیوسک پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو رہا ہے جس کی پاکستانی روپوں میں قیمت ایک کھرب سے زائد بنتی ہے ۔پاکستان کے پاس صرف 30 دن کا پانی سٹاک کرنے کی گنجائش ہے ۔انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی حکمران ابھی اپنی جوتیاں ہی تلاش کررہے ہیں اور ورلڈ بنک کی جھوٹی تسلیوں پر ہی اکتفا کیے ہیں جبکہ بھارت دریائے چناب ، جہلم ، نیلم اور سندھ پر بھی ڈیموں کی تعمیر شروع کرچکا ہے ۔ دریائے چناب کا پانی نہ صرف اپنے علاقے بلکہ راوی ، بیاس اور ستلج کے زرعی علاقوں کو بھی سیراب کرتا تھا اب سندھ طاس معاہدے کے تحت ان پاکستانی دریاﺅں میں بھی پانی کی مقدار نصف تک کم ہوچکی ہے۔ منگلا او ر تربیلا ڈیم میںپانی کی سطح انتہائی کم ہونے کی بنا پر بجلی اور زراعت کے لیے پانی کی قلت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافے کی توقع کی جارہی ہے ۔ بھارت ایک مکار دشمن ہے وہ میدان جنگ میںتو پاکستان کو شکست نہیں دے سکتا‘ اس لیے اس نے پوری شدت سے آبی جارحیت کاآغاز کررکھا ہے ۔پاکستان کو بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف دو ٹوک فیصلہ کرنا ہوگا ۔ میں سمجھتا ہوں پانامہ لیکس کی آڑ میں بھارتی ایجنٹ ایک بار پھر متحرک ہیںاور ترقی کے پہیئے کو ہر ممکن روکنے کی جستجو میں ہیں تاکہ حکومت کی توجہ بھارت کی آبی جارحیت کی جانب مبذول نہ ہو ۔ اگر آبی جارحیت کو روکنے کے لیے پاکستان نے ایٹمی حملے کی دھمکی نہ دی اور اسی طرح الزام تراشی میں وقت گزرتارہا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستانی کسان خود کشی پر مجبور اور شہری بھو ک سے بلک بلکتے دکھائی دیں گے ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن