قومیں تقریروں سے نہیں عمل سے بنتی ہیں۔۔۔
سال 2017ءکی مبارکباد دینے 85سالہ کیپٹن(ر) فریڈ میرے غریب خانہ پر تشریف لائے تو اس مرتبہ ان کے ہاتھ میں امریکی اخبار "Los Angles Time" اور ”واشنگٹن پوسٹ“ کے دو پرچے بھی تھے۔ حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے میں نے ان سے جب یہ پوچھا کہ سال نو کے اس پرمسرت موقع پر امریکی اخبارات ہمراہ لانے کی ضرورت آخر انہیں کیوں محسوس ہوئی؟ تو فریڈ نے مسکراتے ہوئے اردو زبان میں کہا! ”نوائے وقت کے کالم نگار کیلئے اس سے زیادہ خوبصورت اور مطالعاتی تحفہ بھلا اور کیا ہوسکتا تھا؟“ اردو میں اس فقرے کی جس خوبصورتی سے انہوں نے ادائیگی کی میرے لئے وہ حیرانگی سے کم نہ تھا‘ مجھے ان پر اردو دان ہونے کا گمان گزرنے لگا تھا۔ قیام پاکستان سے قبل وہ راولپنڈی اور سیالکوٹ میں چونکہ عسکری خدمات بھی سرانجام دے چکے ہیں اس لئے پیرانہ سالی کے باوجود آنجہانی پروفیسر ڈاکٹر رالف رسل اور اردو دان پروفیسر ڈاکٹر میتھوڈ کی طرح اردو بولنے اور اردو پڑھنے پر وہ بلا کا عبور رکھتے ہیں۔ ”ولایت نامہ“ کو انٹرنیٹ پر باقاعدگی سے پڑھتے ہوئے کالموں میں استعمال کیے میرے اردو انگریزی الفاظ کی لن ترانیوں سے بھی خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ جب جی چاہتا ہے میرے ساتھ ”مشرقی گپ شپ“ لگانے چلے آتے ہیں‘ Cup of coffee سے لطف اندوز ہوتے ہی فریڈ نے اپنی مطالعاتی گفتگو کا آغاز کیا‘ مگر اپنی گفتگو کا رخ جلد ہی پاکستانی سیاست‘ پانامہ لیکس اور قیام پاکستان کے حقیقی بنیادی مقاصد کی جانب موڑ لیا۔ مجھ سے قدرے شرارتی مگر بزرگانہ لہجے میں بولے!
میں جانتا ہوں کہ تم اسلامی روایات کے داعی ہو اور ”مے توحید“ کا نشہ بھی کرتے ہو‘ تمہارا ظاہر وباطن سب تمہارے کالموں میں عیاں ہے۔ عشق مجازی پے لکھے تمہارے بعض کالم میرے عہد شباب کا پتہ دیتے ہیں مگر آج تم سے تمہارے ہی آبائی وطن پاکستان کے تیزی سے بدلتے سیاسی‘ معاشی اور مذہبی حالات پر گفتگو کرنے کا موڈ ہے۔ کیپٹن فریڈ نے کافی کا طویل گھونٹ لیتے ہوئے کہا! اور میرے جواب دینے سے قبل ہی مجھ پر سوال داغ دیا:
مجھے یہ بتاﺅ کہ تمہاری Back Home سیاست میں قیام پاکستان سے لیکر آج تک منافقت کا خاتمہ کیوں نہیں ہوسکا؟ بانی پاکستان مسٹر جناح کا تو یہ خواب ہرگز نہ تھا‘ پھر تمہارے لیڈر یہ روش کیوں اپنائے ہوئے ہیں؟ پاکستان میں سیاست میں قائم اصول پسندی‘ احترام‘ اعلیٰ اقدار اور سماجی انصاف کہیں داغ مفارقت تو نہیں دے گیا؟
فریڈ کا یہ سوال میرے لئے کسی بھاری ہتھوڑے سے کم نہ تھا‘ اور میں شاید اس وزنی سوال کے لئے تیار بھی نہ تھا۔ میں نے فریڈ سے دوبارہ سوال دہرانے کی استدعا کی حالانکہ سوال میری سمجھ میں اچھی طرح آچکا تھا مگر مجھے فریڈ کے سابقہ پاک وہند تجربہ کا بخوبی ادراک تھا۔ سوال میں دہرائے دیتا ہوں مگر پہلے اخبار کی یہ خبر پڑھ لو جو خصوصی طور پر میں تمہارے واسطے لے کر آیا ہوں تاکہ تمہیں میرے سوال کے بنیادی مفہوم سے آگہی ہوسکے۔ فریڈ نے اخبار میری جانب بڑھاتے ہوئے کہا !
خبر میں امریکی نائب صدر Joe Baydon کی کمزور مالی حالت اور امریکہ جیسے سپر پاور ملک کے نائب صدر ہونے کے باوجود سیاست میں ان کی اصول پسندی اور ایمانداری کے بارے میں ایسے الفاظ کوڈ کیے گئے تھے جو دنیا بھر کے مہذب ممالک کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لئے مشعل راہ تھے۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی الوداعی تقریب میں اپنے ہی نائب صدر جو بائیڈن کو جو ان کے گہرے بااعتماد دوست ہی نہیں بھائیوں جیسے بھی ہیں Maddle of Freedam کے اعلیٰ اعزاز سے جب نوازا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور پھر اس موقع پر جو بائیڈن نے شکریہ کے جو کلمات ادا کیے دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے وہ لمحہ فکریہ ہیں۔
بائیڈن کا کہنا تھا کہ سابق امریکی صدر اوباما سے بھائیوں جیسے تعلقات کے باوجود انہوں نے ریاستی امور، ایمانداری، اور اُصول پرستی پر کبھی سودے بازی نہیں کی۔ ملک کے مفاد اور وقار کو ہر شے پر ترجیح دی‘ یہی وجہ ہے کہ مجھے جب یہ معلوم ہوا کہ میرا بیٹا کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوگیا ہے تو میں گھبرا گیا کیونکہ کینسر کے اس علاج کے لئے میرے پاس اتنی رقم نہ تھی جو مجھے درکار تھی۔ اوباما کو جب یہ خبر ملی تو انہوں نے مجھے اپنا گھر فروخت کرکے رقم اکھٹی کرنے کے منصوبے کو ناپسند کرتے ہوئے اپنی جانب سے میری بھرپور مالی مدد کی تاکہ میں اپنے بیٹے کا علاج کروا سکوں۔ امریکہ کا میں بھی نائب صدر تھا‘ چاہتا تو سرکاری حوالے سے کچھ بھی کرسکتا تھا مگر میری خوداری، اصول پرستی اور خوف خدا آڑے آگئے۔ میرے دوست اوباما نے رقم کا بندوبست کر دیا مگر میرا بیٹا کینسر کے مرض سے پھر بھی نہ بچ سکا اور ہمیشہ کی نیند سو گیا۔ میں مطمئن ہوں کہ اپنے بیٹے کے علاج کے لئے میں نے کوئی غیر قانونی اقدام نہیں اٹھایا اور نہ ہی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔
بس یہی تھی وہ خبر جو میں تمہیں پڑھوانا چاہتا تھا۔ فریڈ نے مجھے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا اور پھر قدرے توقف کے بعد بولا!
یہی وہ سوال تھا جو تمہاری سمجھ میں نہ آسکا۔ اب تم ہی بتاﺅ کہ امریکی نائب صدر جو بائیڈن مسلمان نہیں مگر کام اس نے وہ کیا جو بالعموم مسلمان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایمانداری اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے مگر افسوس بیشتر اسلامی ممالک میں ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا اور پھر پاکستان کی تو بنیاد ہی اسلام پر رکھی گئی تھی پھر کیا وجہ ہے کہ وہاں سیاست سمیت ہر شعبہ زندگی میں مفاد پرستی، جھوٹ اور خود فریبی اثرانداز ہوچکے ہیں؟ معاشرے قربانیوں اور عمل سے معرض وجود میں آتے ہیں‘ اور یہی وجہ ہے کہ باوقار قومیں اپنے لیڈروں سے پہچانی جاتی ہیں۔ برطانیہ کو گریٹ برٹن اس لئے کہا جاتا تھا کہ برطانوی اقدار کے محافظ اس کے لیڈر تھے‘ جن پر اہل برطانیہ کو آج بھی فخر ہے۔ برطانیہ کے فلاحی نظام پر دنیا آج بھی حیرت کا اظہار کرتی ہے حالانکہ اسلام میں یہ نظام کئی سو سال پہلے متعارف ہوچکا ہے، کامیابی کیوں حاصل نہ کر پایا؟ اس لئے کہ سیاسی قیادتیں اخلاص کا مظاہرہ نہ کرسکیں۔
1946ءکا ذکر ہے‘ میں کمیشن حاصل کر چکا تھا‘ Rion Bawen برطانیہ کے وزیر صحت تھے کہ ان کے والد بیمار ہوگئے‘ ہسپتال لے جانے پر ان کا اس وقت 5پونڈ کا خرچ آیا جو بحثیت وزیر انہوں نے ادا تو کردیا مگر عام شخص کی کمزور حالت کو وہ برداشت نہ کرسکے‘ ہاﺅس آف کامن میں دو مرتبہ ہیلتھ بل پیش کیا مگر کامیابی نہ ہوئی‘ تیسری مرتبہ ہاﺅس آف لارڈز سے بل منظور ہوا اور یوں آج عام برطانوی شہری بھی نیشنل ہیلتھ سروسز سے مفت استفادہ کر رہا ہے‘ اسے کہتے ہیں عوامی لیڈر شپ؟
بزرگوار فریڈ کی باتوں میں سچائی تھی‘ نئے سال کی آمد پر مجھے وہ ایسا درس دے کر جا رہے تھے جیسا بانی پاکستان محمدعلی جناح نے حکمرانوں، سیاستدانوں، سرکاری افسروں، محکموں کے سربراہان اور قوم کے ہر فرد کو دیا تھا۔