لاہور بار الیکشن، صدر کیلئے تنویراختر کی برتری، بائیومیٹرک سسٹم مکمل نہ چلا
لاہور (اپنے نامہ نگار سے) بائیو میٹرک سسٹم کی ناکامی کے باعث 14 جنوری کو ملتوی ہونے والے لاہور بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات گذشتہ روز مکمل ہو گئے لیکن ایک بار پھر بائیو میٹرک سسٹم دھوکہ دے گیا اور’’ملا جلا سسٹم‘‘ چلا کر انتخابات مکمل کئے گئے۔ انتخابات کے حوالے سے وکلا کے شدید تحفظات پائے جا رہے ہیں۔ آخری اطلاعات کے مطابق صدر کے لئے حامد خان گروپ کے چودھری تنویراختر، جنرل سیکرٹری کی دو سیٹوں پر فرحان جعفری اورملک سہیل مرشد، نائب صدر کی دو سیٹوں پر عرفان صادق تارڑ اور نوید چغتائی جب کہ لائبریری سیکرٹری کی سیٹ پر ملک ممتاز واضح برتری سے آگے تھے اور ان کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ بائیو میٹرک سسٹم کے تحت درج کئے گئے 7048 ووٹوں میں سے 4400 ووٹ کاسٹ ہوئے۔لاہور بار کے چھ عہدوں کے لئے ایک خاتون سمیت 16 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ صدارت کیلئے روایتی حریف حامد خان گروپ اور عاصمہ جہانگیر گروپ آمنے سامنے تھے۔ صدارت کے لئے حامد خان گروپ کی جانب سے چودھری تنویراور عاصمہ جہانگیر گروپ کے ملک ارشد میدان میں تھے۔ ووٹرز کے انگوٹھوں کے نشانات کے ذریعے بائیو میٹرک سسٹم سے بیلٹ پیپرز نہ نکلنے پر قومی شناختی کارڈ کے ذریعے بیلٹ پیپر نکالے گئے اور ووٹ کاسٹ کئے گئے۔ اس کے ساتھ مینوئل سسٹم کے تحت بھی ووٹنگ جاری رہی۔ سیکرٹریٹ گیٹ سے بابا گرائونڈ تک امیدواروں کے سپورٹرز کثیر تعداد میں ہاتھوں میں سٹکرز پکڑے لمبی قطاروں میں کھڑے تھے۔ لاہور بار کی صدارت کے لئے تنویر چودھری اور ملک ارشد کے درمیان سخت مقابلہ رہا۔ نائب صدر کی دو نشستوں کے لئے 6 امیدوارسیدہ تحسین زہرہ کاظمی، ریاض چوہان، عرفان صادق تارڑ، مہر تنویر ا، مسرت رحمان وڑائچ اور نوید چغتائی میں مقابلہ ہوا۔ ماڈل ٹائون کی نائب صدر کی ایک نشست کے لئے حسام الدین خان بسریا اور میاں نعیم وٹو نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے لیکن الیکشن بورڈ کے چیئرمین نے ان کے درمیان ووٹنگ کرانے کی بجائے دونوں امیدواروں کو چھ چھ ماہ کے لئے منصب سنبھالنے کا فیصلہ کر دیا۔پہلے چھ ماہ میاں نعیم وٹو اور دوسرے چھ ماہ حسام الدین خان نائب صدر ہونگے۔سیکرٹری کی دو نشستوں کے لئے 6 امیدواروں اجمل خان کاکڑ، چودھری ایم ایچ شاہین، رانا کاشف سلیم، فرحان مصطفیٰ جعفری، ملک سہیل مدثر اور ملک فیصل اعوان کے درمیان مقابلہ ہوا۔ لائبریری سیکرٹری کے لئے سمیع خان اور ملک ممتاز کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ تھا۔جبکہ جوائنٹ سیکرٹری کی نشست پر عالیہ عاطف خان، فنانس سیکرٹری کی نشست پر شاہد علی بھٹی اور آڈیٹر کی نشست پرثمینہ طفیل ملک بلامقابلہ کامیاب ہو چکے ہیں اس طرح ایگزیکٹو کمیٹی کے 8امیدواروں کو بلامقابلہ کامیاب قرار دیا جا چکا ہے جن میں اظہر ،نیک محمد چودھری، ظفر حسین خان، محسن عارف، انور خان، مظہر محمود بھٹی، ملک عمر مدثر اور میاں واجد علی شامل ہیں۔ انتخابات کے لئے چالیس بائیو میٹرک پولنگ بوتھ بنائے گئے تاہم زیادہ تر ووٹرز نے مینوئل طریقے سے ووٹ کاسٹ کئے۔ بائیو میٹرک سسٹم کے کمپیوٹرز کو چلانے کے لئے آئی ٹی یونیورسٹی سے 35 ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ چیئرمین الیکشن بورڈ نے پولنگ کا انعقاد سیشن کورٹ کی عمارت میں منعقد کرنے کی بجائے ملحقہ بابا گرائونڈ میں کیا۔ جس کے باعث سیشن کورٹ کے احاطے میں دن بھر سناٹا چھایا رہا۔ پولنگ کے موقع پر سیشن کورٹ اور بابا گرائونڈ کے اردگرد سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ پولنگ صبح نو بجے سے شام 6 بجے تک جاری رہی۔ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد تین سو کے قریب وکلاء ووٹرز پولنگ سٹیشن کی حدود میں موجود ہونے کے باوجود اپنا حق رائے دہی استعمال نہ کر سکے جس پر انہوں نے احتجاج کیا۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان، عا صمہ جہانگیر، سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل رمضان چودھری، برہان معظم ملک، آزر لطیف، صفدر شاہین پیرزادہ، رانا انتظار لاہور ہائیکورٹ بار کے عہدے داروں رانا ضیاعبدالرحمان،کوارڈینیٹر پاکستان بار کونسل مدثر چودھری، ندیم بٹ، مشفق خان، انس غازی پنجاب بار کونسل، پاکستان بار کونسل کے ممبران سمیت دیگر سرکردہ وکلاء رہنمائوں نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ وکلاء رہنمائوں نے بار کے الیکشن میں بدنظمی پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ ووٹرز اور سپورٹرز کی پر تکلف کھانا سے تواضح کی گئی۔ گزشتہ انتخابات میںلاہور بار کے 17 ہزار 9 ووٹرز رجسٹرڈ تھے۔