سانحہ کوئٹہ: ’’آپ کی رپورٹ کچھ بھی نہیں‘‘ ارکان قائمہ کمیٹی چیئرمین انسانی حقوق کمشن پر پھٹ پڑے
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ارکان چیئرمین ہیومن رائٹس کمشن پر پھٹ پڑے اور کوئٹہ سانحہ پر کمشن کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی رپورٹ کچھ بھی نہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے تو سب سچ کھول کر رکھ دیا۔ چیئرمین انسانی حقوق کمشن نے اعتراف کیا کہ سانحہ کے متاثرہ ہر شخص سے نہیں مل سکے۔ چیئرمین انسانی حقوق کمشن علی نواز چوہان نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ سفارشات کی ہیں کہ انٹیلی جنس میکنزم کو ایکٹو کریں۔ میڈیکل اور فرانزک لیبارٹریز کی سہولیات مہیا کریں۔ سانحہ کوئٹہ کے شہداء اور زخمیوں کو ازالے کا بندوبست کریں۔ ایسے واقعات سے بچنے کیلئے سکیورٹی ادارے مشترکہ جامع حکمت عملی بنائیں۔ ارکان نے کمشن کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی رپورٹ تو سرکار کیلئے لگتی ہے صرف آپ کے وزٹ کا ذکر ہے۔ کھل کر بتائیں ذمہ دار کون ہے، سچ بتائیں۔ پے درپے واقعات پر کسی نے ذمہ داری تک قبول نہیں کی۔ رکن کمیٹی منزہ حسن نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ اور پولیس ٹریننگ سنٹر واقعہ کی آزادانہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔ آپ کوئٹہ کے سرکاری افسروں اور بڑے لوگوں سے ملتے ہیں۔ کسی غریب کے گھر بھی گئے۔ آپ کو جہاں لے جایا گیا وہاں گئے خود کسی کا پتہ نہیں کیا۔ افسوس ہے! کیا آپ کو پتہ ہے کہ 17 سے 20 وکلاء ابتدائی طبی امداد نہ ملنے پر جاں بحق ہوئے۔ اب پاراچنار میں بڑا سانحہ ہوا، آپ کی ذمہ داری تھی کہ فوری پہنچتے، کیا آپ گئے؟ اسلام آبا د سے خبر نگار کے مطابق اجلاس میں سیکرٹری وزارت انسانی حقوق اور چیئرمین قومی کمیشن انسانی حقوق اختیارات کے معاملے پر لڑتے جھگڑتے رہے جس پر قائمہ کمیٹی کمیشن کے اختیارات کو محدود کرنے کیلئے ایکشن میں آگئی ہے اور آئندہ اجلاس میں کمیشن کے سارے ارکان کو مدعوکرتے ہوئے متعلقہ قانون پر نظرثانی کا اعلان کردیا ہے جبکہ چیئرمین جسٹس (ر) علی نواز چوہان نے سانحہ کوئٹہ کو’’انٹیلی جنس‘‘ کی ناکامی قرار دے دیا ہے، انہوں نے واضح کیا ہے کہ آزاد و خود مختار رپورٹ کی تیاری کیلئے کام شروع کردیا ہے، بلوچستان بار کے صدر پر قاتلانہ حملے کے بعد ہسپتال میں بار بار دکھائے دینے والے مشکوک شخص کا انٹیلی جنس اداروں نے نوٹس کیوں نہیں لیا۔ ارکان نے کمشن رپورٹ کی تیاری میں تاخیر پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ یقیناً کمیشن کو آزادی وخودمختاری سے کام کرنے کااختیار حاصل ہے مگر رپورٹ کی بروقت تیاری میں ناکام رہا ہے۔آئندہ اجلاس میں یہ رپورٹ ہر صورت پیش کی جائے۔ قائمہ کمیٹی نے قومی کمیشن کی جانب سے تاحال اس معاملے پر حکومت کو جامع سفارشات پیش نہ کرنے پر تحفظات کااظہار کردیا ہے۔قائمہ کمیٹی نے اس سانحہ پر بریفنگ کیلئے تین بار طلب کرنے کے باوجود عدم شرکت پر بلوچستان کے چیف سیکرٹری،ہوم سیکرٹری اور صحت سیکرٹری کے سمن جاری کرنے کی ہدایت کردی ہے۔قائمہ کمیٹی نے وزارت خارجہ اور وزارت انسانی حقوق کی جانب سے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق سے مشاورت سے 20 فروری کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیٹی میں پاکستان میں شہری و سیاسی حقوق و دیگر معاملات پر پیش کی جانے والی رپورٹ کو تاحال حتمی شکل نہ دینے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ اجلاس کے دوران سیکرٹری انسانی حقوق وزارت داخلہ کے خلاف پھٹ پڑے اور کہا کہ رپورٹ کو مختلف طبقات کے خلاف تشدد و حراساں کرنے کے معاملات پر بھی نکات شامل کرنے ہیں، وزارت داخلہ کو کئی خط لکھ چکے ہیں، ذاتی اثرورسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے وزارئے کے ذریعے بھی سیکرٹری داخلہ کو کہلوایا گیا مگر تاحال ان کی جانب سے کسی قسم کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔ سیکرٹری انسانی حقوق نے بالواسطہ طور پر وزارت داخلہ پر انسانی حقوق کی صورتحال پر رپورٹ کو حتمی شکل نہ دیے جانے کا ذمہ دار وزارت داخلہ کو ٹھہرا دیا۔خیبرپی کے کی حکومت نے تو ہمارے ساتھ مذاق کیا اور جب اس رپورٹ کی تیاری کیلئے صوبائی دارالحکومت گئے تو ہمارے ساتھ ملاقات کیلئے جس ایڈیشنل سیکرٹری کی ذمہ داری لگائی گئی وہ موجود ہی نہیں تھے۔ 17 وفاقی اداروں کو رپورٹ کی تیاری کیلئے معلومات کیلئے کہا گیا ہے بیشتر کے جوابات نہیں آئے،کلیدی معلومات وزارت داخلہ سے آنی ہے۔اس موقع پر ان کی انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین کے ساتھ اختیارات کے معاملے پر جھڑپ بھی ہوئی،دونوں ایک دوسرے کے اختیارات کو چیلنج کرتے رہے۔اجلاس میں چیئرمین انسانی حقوق کمیشن علی نواز چوہان نے واضح کیا کہ کمیشن اپنے مینڈینٹ کے مطابق انسانی حقوق کی صورتحال پر ’’شیڈو رپورٹ‘‘تیارکرسکتا ہے مگر حکومتی اداروں کا تعاون نہیں مل رہا ہے۔