• news
  • image

رضا ربانی اور خواجہ آصف ایک پیج پر

سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے جب سے اپنے ہی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے آئین کو تہس نہس کیا ہے ان میں بلا کا اعتماد آگیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی روح تو اپنی جماعت کے ایک ایسے کارکن پر بہت تڑپی ہو گی، اس آئین کو بے روح کر دینے کی جسارت جسے تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا اور جس میں بھٹو کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے میں معمولی کوتاہی یا کسی ایک موقف میں ردوبدل کرنے کی جسارت پر ذوالفقار علی بھٹو نے قانون کے نامور ماہر اور آئینی امور کی بے انتہا سوجھ بوجھ رکھنے والے اپنے ہی وزیر قانون میاں محمود علی قصوری کو مستعفی ہو کر گھر چلے جانے کا کہہ دیا تھا۔ میں نے میاں محمود علی قصوری کو استعفیٰ دینے سے ایک دن پہلے ٹیمپل روڈ پر ملک لال خاں کے گھر دیکھا جب وہ بڑے آزردہ ہو کر بتا رہے تھے کہ وزیراعظم صاحب آئین کے معاملہ میں ان کو ڈکٹیشن دیتے ہیں اور معمولی سی نوک پلک سنوار کر پیش کریں تو غصے سے کہتے ہیں یہ تو میں نے نہیں کہا تھا۔ اپنی بقراطی نہ لگایا کریں آپ کو آئین کا کیا پتہ ہے یہ فقرہ کہتے ہوئے میاں محمود علی قصوری جذباتی ہو گئے اور کہا آپ سے اجازت لینے آیا ہوں کہ میں استعفیٰ دے دوں۔ ملک صاحب نے کہا محمود علی میری طرف سے اجازت ہے مگر میرا مشورہ ہے ایک اور سیانے سے بات کر لیں چونکہ بھٹو کی کابینہ میں یہ پہلی دراڑ تھی۔ ملک صاحب خبر ملنے پر میری بے چینی بھانپ گئے تھے اور مجھے جانے کی اجازت دے دی حالانکہ جب بات شروع کرنے سے پہلے میاں محمود علی قصوری نے کہا وہ بہت اہم اور ضروری مشورہ کرنا چاہتے ہیں تو ملک صاحب بولے خالد میرا فیملی ممبر ہے اسکی موجودگی کی فکر نہ کریں اور بات کریں جو کرنی ہے۔ میں جلدی سے نوائے وقت آیااور نظامی صاحب سے فون پر بات کی۔ میں نے سلام دعا کے بعد کہا نظامی صاحب میاں محمود علی قصوری مستعفی ہو رہے ہیں۔ نظامی صاحب بولے میاں صاحب میرے ہی پاس بیٹھے ہیں۔ میں ان کے استعفیٰ کی کاپی آپ کو بھجوا دیتا ہے لیکن یہ خبر لوکل میں لیڈ بنانا یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد بجز اسکے اور کچھ نہیں کہ بھٹو آئین کے معاملے میں کتنے حساس تھے۔ وہ تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کی شومئی قسمت اس درجہ انہیں دکھ دے گی کہ ان کی جماعت کا ایک کارکن انکی ساری سیاسی اساس پر کلہاڑا چلائے گا۔ اسکی روح نکال دے گا اور اپنی سطحی سوچ کو آئین کے مقدس اوراق میں اس طرح شامل کرائے گا کہ میری ساری سوچ اور کوشش غتر بود ہو جائے گی ہے۔ کہاں ذوالفقار علی بھٹو کی سوچ اور کہاں رضا ربانی کی سوچ مگر یہ حقیقت ہے کہ پست سوچ اسی طرح غلبہ حاصل کر چکی ہے اور ایسی انہونی ہو چکی ہے جس کا تدارک ممکن نہیں۔ اسی انہونی نے رضا ربانی کو جو اعتماد دیا اور انہیں سینٹ کی چیئرمینی کے تاج کے ساتھ خود کو بہت زیادہ اہم اور دانا سمجھنے کے وہم میں مبتلا کر دیا۔ وہی سینٹ جس کے دو ارکان جو رضا ربانی کی ہی جماعت سے ہیں اور بیک بنچر نہیں نمایاں بلکہ بہت ہی نمایاں وزارتوں پر متمکن رہنے والے لیڈر آف دی ہا¶س کے منصب پر فائز سورة اخلاص بھی نہیں پڑھ سکتے بلکہ غلط پڑھنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ان پر آئین کی اس قابل عمل قرار دی جانے والی قرارداد مقاصد کی کیا تفہیم ہو گی جس میں کہا گیا ہے اور جواب آئینی ہے ”چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اسکی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہو گا وہ ایک مقدس امانت ہے.... جسکی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق جس جس طرح کہ قرآن و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے ترتیب دے سکیں۔
اب اگر جمہور کے دو معزز نمائندے قرآن کی چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ہی سے تین بھی صحیح طرح نہ پڑھ سکیں تو ان کو جمہور کی نمائندگی کرنے کا حق علمی اعتبار سے اخلاقی اعتبار سے اور آئینی اعتبار سے باقی نہیں رہتا۔ رضا ربانی نے اگر کچھ کرنا ہے تو ادھر توجہ دیں اپنی سوچ سے متصادم آئین کی دفعہ 62 کو آئین کا حصہ ہی سمجھیں جس میں کہا گیا کہ ایسا شخص پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں جو اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہیں رکھتا ہو۔ ایسے میں اپنے ان دو ارکان کو جو سورة اخلاص کو پڑھ بھی نہیں سکتے سینٹ میں دیکھ کر انکی آئینی ذمہ داری کیا کہتی ہے۔ وہ سینٹ یا اسکے ارکان کے آئین کو اہلیت کے معاملہ پر غور کرنے یا اسے کسی منطقی انجام تک پہنچانے کی بجائے فوج کے سابق سپہ سالار کی موومنٹ میں زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ افواہوں سے زیادہ واہموں اور خدشوں پر اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس معزز ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا موجب بن رہے ہیں۔ پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کی 39 مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کی سربراہی کی خبر کی تصدیق یا تردید کا انتظار کئے بغیر جس بے صبری سے سینٹ میں وزیر دفاع کو پالیسی بیان دینے کا حکم دیا اور وزیر دفاع نے بھی جس عاجلانہ انداز میں اس حکم کی تعمیل کی اس سے ایک بات تو ظاہر ہوتی ہے کہ فوج اور اسکے سابق سربراہ کے بارے میں رضا ربانی اور خواجہ آصف ایک ہی پیج پر ہیں۔ خواجہ آصف چیئرمین کو یہ کہنے کی جرات نہ کر سکے کہ حضور والا افواہوں پر اس قسم کے احکامات جاری نہ کیا کریں۔ مفروضوں پر پالیسی بیان نہیں دئیے جاتے۔ خواجہ آصف کیا بھرے سرتاج عزیز بھی انگلی کٹوا کر شہیدوں میں شامل ہونے لگے ،بولے کہ ابھی وہی سابق آرمی چیف کی طرف سے این او سی کیلئے کوئی درخواست نہیں آئی اور پھر فرحت اللہ بابر‘ الیاس بلور‘ اعظم خاں سواتی اور محسن عزیز جب ایک واہمے پر اس معزز ایوان میں اپنے تحفظات‘ خدشات یا نقطہ نظر پیش کر رہے تھے تو میں حیران تھا کہ یا خدا یہ ادارہ تو دانش اور سوجھ بوجھ کی علامت تھا اس قسم کی اطلاعات پر ردعمل تو یہاں کے ارکان کو زیب نہیں دیتا تھا وہ محتاط ہوتے تھے خبر کی تصدیق کے بعد اور وہ بھی انتہائی معتبر پلیٹ فارم سے وہ محتاط انداز سے ہی گفتگو کرتے تھے البتہ سینٹ کے چیئرمین کی اس ”حریت فکر“ پر ایک گھریلو ملازمہ کے رونے دھونے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال بہت ہی مماثلت رکھتی نظر آتی ہے۔ ہوا یوں کو نوجوان ملازمہ کے رونے کی آواز سن کر اسکی ماں بھاگی بھاگی اس کے پاس پہنچی اسکے رونے کا سبب پوچھا ماں کو دیکھ کر ملازمہ نے زیادہ زور سے رونا شروع کر دیا۔ ماں جوں جوںرونے کی وجہ پوچھتی لڑکی زیادہ دردمندی سے روتی۔ ماں سے بیٹی کا رونا برداشت نہ ہوا تو اس نے خود رونا شروع کر دیا۔ یک نہ شد دو سے پوری کوٹھی میں کہرام مچ گیا۔ مالکہ فوراً ان کی دلجوئی کے لئے وہاں پہنچی تو ماں بیٹی کو اس بری طرح روتے دیکھ کر وہ بھی جذبات پر قابو نہ رکھ سکی۔ اب پوری کوٹھی سے رونے دھونے سے ہمسایوں میں بھی اطلاع ہو گئی ہر کوئی ادھر کھنچا آرہا ہے۔ حق ہمسائیگی ادا کرتے ہوئے ایک ہمسائے نے کوٹھی کے باہر ٹینٹ لگوانے کرسیاں‘ دریاں‘ قالین سبھی کا جس تیزی سے انتظام کیا اس سے زیادہ تیزی سے لوگ ان پر غمزدہ چہروں کے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔ بالآخر کسی بھلے آدمی نے پوچھا کون فوت ہوا ہے اسکے بارے میں جب کوئی بھی نہ بتا سکا تو جس پھرتیلے ہمسائے نے ٹینٹ لگوائے تھے، اسے پوچھا اس نے کہا کوٹھی سے مسلسل رونے کی آوازیں آئیں تو میں نے بغیر پوچھے ٹینٹ لگوا دئیے، آخر ہمسائے کس لئے ہوتے ہیں۔ کوٹھی کے مالک سے پوچھا اس نے کہا بیگم صاحبہ رو رہی تھیں شاید ان کا کوئی عزیز فوت ہو گیا ہے، میں پتہ کرتا ہوں، بیگم سے جا کر پوچھا اس نے کہا گھریلو ملازمہ کا کوئی رشتہ دار انتقال کر گیا خاوند نے کہا محلے والے پوچھ رہے ہیں مجھے معلوم کرکے بتا¶ تاکہ میں جا کر انہیں بتا سکوں۔ بیگم صاحبہ نے اپنی ملازمہ سے پوچھا کون فوت ہوا وہ بولی بیگم صاحبہ میری بیٹی کو ہی اطلاع آئی ہے یہ مجھے بتا ہی نہیں سکی، بس پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی اس سے پوچھ لیجئے۔ بیگم صاحبہ نے لڑکی سے پوچھا کون فوت ہوا ہے وہ بولی بیگم صاحبہ ابھی ہوا تو نہیں مگر میں سوچ رہی تھی کہ اگر میری شادی ہو گئی پھر میرا بچہ ہوا۔ وہ بیمار ہو گیا تو ہم غریب تو دوائی بھی نہیں خرید سکتے اسے دوائی نہ ملی تو کیا ہو گا۔ اگر ہسپتال لے جانا پڑا تو کیسے لے کر جائیں گے۔ اگر ہسپتال پہنچ بھی گئے تو ہم غریبوں کے بچے کا ڈاکٹر کیوں علاج کرے گا اگر علاج کرے گا تو مہنگی دوائی کہاں سے خریدیں گے اور جب دوائی خریدنے کیلئے پیسے نہ ہوئے تو بچہ بغیر علاج کے مر جائے گا۔ میں سوچ کر رو پڑی۔ اماں نے بھی آکر رونا شروع کر دیا اور پھر آپ نے بھی۔ تو جناب چیئرمین سینٹ اور وزیر دفاع ابھی تو اس بچی کی شادی نہیں ہوئی جس کی شادی کے بعد ہونے والے بچے کے بیمار ہونے اور ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد مر جانے کا آپ سیاپا کر رہے ہیں اور ٹینٹ دریاں کرسیاں لگا کر غمزدہ چہروں کو اظہار افسوس کے لئے اکٹھا کر رہے ہیں۔ آپ کی اس ساری کارروائی پر آپ دونوں کے ذوق کے مطابق ہے یا نہیں فیض احمد فیض کا یہ شعر پیش کرنا چاہتا ہوں۔
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
جنرل راحیل شریف کے دور کو ڈرا¶نا خواب سمجھ کر بھول جایئے اور اپنی ہی فوج اور اسکے سپہ سالار کے بارے میں وسوسوں اور واہموں کی بیماری کی کوئی زود اثر دوائی ضرور لیجئے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن