مگر دیوار برہمن کیسے گر سکتی ہے
بھارتی سپریم کورٹ نے نریندر مودی کو اپنے ایک بظاہر حیران کن فیصلے سے بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے اس فیصلے کی رو سے نام نہاد سیکولر اور جمہوری بھارت میں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر الیکشن لڑنا اور ووٹ مانگنا ممنوع اور نا جائز قرار دیا گیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ صوبہ گجرات کے بیگناہ مسلمانوں کا قتل عام کروانے کے بعد جہاں دنیا بھر میں وہ دہشت مند قرار پایا تھا وہاں وہ ہندو مہا سبھا کے پرانے ایجنڈے کا سچا اور پکا نمائندہ اور علمبردار بھی تسلیم کر لیا گیا تھا۔ اس حیثیت سے عام انتخابات کے نتیجے میں نریندر مودی دہشت گرد وزیر اعظم بھی بن گیا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد سے اب تک وہ مسلسل ہندو مہا سبھا کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ پہلے اقدام کے طور پر وہ غیر ہندو اقلیتوں کا خصوصاً مسلمانوں کو سیدھا کرنے پر لگا ہوا ہے، دوسرے اقدام کے طور پر وہ اپنے نام نہاد اٹوٹ انگ کشمیر کا مسئلہ ختم کر کے پاکستان کو سدھا نے پر کمر بستہ ہے مگر اسے جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا احساس دلایا جاتا ہے اور پاک افواج ( میں جسے پاکستان کا ہائیڈروجن بم قرار دیتا ہوں) کے عزم و سر فروشی سے آگاہ کیا جاتا ہے تو موصوف کے دانت کھٹے ہو جاتے ہیں، تا ہم تیسرے قدم کے طور پر نریندر مودی ایک طرف تو آج کل پنجہ یہود میں گرفتار انکل سام کا اعتماد حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے اور خچر بنکر ہی سہی اسے سواری مہیا کرنے پر بھی آمادہ ہے(ٹرمپ کا تو بوجھ بھی کچھ زیادہ ہی لگتا ہے!) دوسری طرف صہیونی اسرائیل کے نتین یاہو کے بھی مودی بہت قریب آ گیا ہے جو مشرق وسطی میں یہودی گدھے کا کردار ادا کرنے کے لئے ٹرمپ کی موزوں سواری ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کے بوجھ کو زیادہ دیر کون برداشت کرے گا خچر یا گدھا؟
دیوار برہمن کے حوالے سے ایک بڑی خبر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے آئی تھی جسے بعض لوگوں نے کچھ پسند بھی کیا تھا شاید آپ نے بھی پڑھی ہو گی، وہ خبر اس طرح ہے کہ ایک ہندو مصنف نے مسئلہ کشمیر بخوبی حل کروا دینے کی نیت سے کتاب لکھی ہے، مصنف کل کرنی نے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی کنفڈریشن بنانے کی تجویز دی ہے، مسٹر کل کرنی کو بھی واگہ کی بین الاقوامی سرحد چبھتی ہے اور وہ بھی اسے دیوار برلن کی طرح گرا دینے کے آرزو مند ہیں، کتاب کی تقریب رونمائی کی مناسبت سے بھارت کے نائب صدر جناب حامد انصاری نے بھی اس تجویز کو بہت سراہا ہے۔ انصاری صاحب بھی ایک ہندو مزاج مسلمان (یعنی ہندو سے گھل مل جانے والے مسلمان) اور بھارت کے مسلمان صدر مسٹر علی احمد اور مسٹر عبدالکلام ( جو بھارت کے ایٹمی اسلحہ کے بڑے کاریگر بھی تھے) کی صفوں میں شامل ہونے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ اگر فٹ آگئے تو ہو سکتا ہے کہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے حامد انصای کو بھی فریب کار برہمن بھارت کے صدر جمہوریہ کا طوق گلے میں ڈال دے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سب ” بزرگوں“ کو واگہ کی تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد تو چبتھی ہے مگر انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ جنوبی ایشیا کے ٹکڑے کرنے والی اصل تلوار تو برہمن ہے اس لئے سب کو دیوار برہمن گرانے کے لئے جتن کرنا چاہئیں۔ یہ برہمن ہی ہے جو پر امن بقائے باہمی کی تو بات بھی سننے کا روادار نہیں ہے، اس کا سیکولرزم اور جمہوریت بھی ایک وہم اور فریب کاری ہے، کیونکہ جہاں طبقاتی تقسیم ہو اور پر امن بقائے باہمی مفقود ہو وہاں برابری اور برادری کہاں؟ اور جہاں اخوت اور مساوات نہ ہو وہاں نہ سیکولرزم ہو سکتا ہے اور نہ جمہوریت آ سکتی ہے ایسے میں اونچی ذات کے ہندو یا برہمن کی اکثریت بھی ایک دررندہ صفت گروہ ہی ہو سکتا ہے۔ برہمن کی نام نہاد اکثریت کے متعلق تو مسلمانوں کے لیڈر قائد اعظم محمد علی جناخ نے یہی تو کہا تھا اورر ستر سال کے دوران میں یہ حرف بحرف سچا بھی ثابت ہو چکا ہے ، اب تو نریندر مودی بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی کنفڈریشن کے بجائے قائد اعظم کے اس قول پر ریفرنڈم کرا لیں کہ برہمن کو اپنے ” حسن سلوک“ کا بھی علم ہو جائے گا اور اس پر اپنی اکثریت بھی روشن ہو جائے گی!
بھارتی سپریم کورٹ پر جو حقیقت آج روشن ہوئی ہے یا ہندو دانشوروں پر آج کھلی ہے مسلمانوں نے اور ان کے لیڈر نے تو سو سال پہلے ہی بتا دی تھی، مسلمانوں کو متحد رکھنے کی ہر تجویز کو ٹھکرا دیا مگر قائد اعظم ایسی ہر تجویز قبول کرتے گئے جس میں ماضی کی حاکم قوم کے دستوری حقوق کی ضمانت ہوتی، یہ تو ہندو کانگرس کے لیڈر تھے جو انگریز کی سنائی ہوئی لوری سے مست تھے اور مسلمانوں پر ہندو مہا سبھا کا ایجنڈا ٹھونسنے پر کمر بستہ تھے وہ انگریزوں کے جانے کے بعد مسلمانوں سمیت دیگر غیر ہندو اقوام کے ساتھ بھی یہی سلوک کرنا چاہتے تھے جو آج نریندر مودی اور اس کے مہا سبھائی پیروکار کر رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا کی حقیقی در اصل مشکل اونچی ذات کے ہندو برہمن کی خرد ماغی ہے یا آپ اسے ” دیوار برہمن “ بھی کہہ سکتے ہیں، یہ دیوار اب نریندر مودی کے سبب گر سکتی ہے۔ ہندو مسلمانوں کو نہ تو بھگا سکتا ہے نہ اچھوت بنا سکتا ہے اور نہ مٹا سکتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل ہو، فیڈریشن، کنفڈریشن بنے یا کچھ اور بنے، اصل بات برہمن کا دماغ درست ہونا ہے یا برہمن کی دیوار گرانا ہے۔ ورنہ جنوبی ایشیا پر آنجہانی چواین لائی وزیر اعظم چین کی پیشن گوئی صادق آنے وال ہے کہ سقوط ڈھاکہ انتہا نہیں بلکہ ابتدا ہے! یعنی جنوبی ایشیا کے ٹکڑے ہونگے کیونکہ ہندو کی ذات پات، چھوت چھات اور نفرت کی طبقاتی لعنت میں کوئی کشش نہیں ہے، آج کا انسان تو برابری اورر برادری کا آرزو مند ہے، نسل پرستی اور مذہبی جنون اور تنگ نظری کے لئے کوئی جگہ نہیں، اس لئے دیوار برہمن اب گرا چاہتی ہے!