• news

پاکستان بھارت کشیدگی خارجہ پالیسی چیلنجز فہرست میں شامل کی جائے: ایڈمرل جیمز

اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) نیٹو کے سابق سپریم کمانڈر اور امریکی ایڈمرل جیمز سٹیوریڈس نے ٹرمپ انتظامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاک بھارت کشیدگی کو بھی خارجہ پالیسی چیلنجوں کی فہرست میں شامل کر کے فوری طور پر جنوبی ایشیا کی دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان تنازعات کے حل اور کشیدگی ختم کرانے کیلئے ٹریک ٹو سفارتکاری شروع کرائے۔ مؤقر امریکی جریدے ’’ فارن پالیسی‘‘ کے تازہ شمارے کیلئے تحریر کردہ اپنے مضمون نے ایڈمرل (ر) جیمز نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے خارجہ پالیسی ریڈار پر ، شمالی کوریا، شام، چین اور اس نوعیت کے دیگر چیلنج تو دکھائی دے رہے ہیں لیکن پاک بھارت کشیدگی جیسا خطرناک چیلنج نہیں نظر آ رہا جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان بیس کروڑ آبادی کا بڑا ملک ہے اور ایک ایسی ایٹمی ریاست ہے جسے دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام جیسے مسائل درپیش ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس طرح پاکستان کو استحکام حاصل کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو سمجھنا ہو گا کہ پاکستان پر اثر انداز ہونے کی امریکی استعداد محدود لیکن بالکل بے اثر نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ، یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات اس انداز میں بڑھائے جائیں جس سے پاکستان کو خطرہ محسوس نہ ہو۔ امریکہ، جنوبی ایشیا میں استحکام کو اپنی سٹرٹیجک دلچسپی کا حصہ بناتے ہوئے ہوئے اس استحکام کیلئے بھارت کی حوصلہ افزائی کرے اور اعلیٰ امریکی حکام کو خطہ کے دوروں پر بھیجا جائے۔ ٹرمپ انتظامیہ دوسرا اہم اقدام یہ کرے کہ پاک افغان سرحد پر دہشت گردی کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے امریکہ پاکستان کی فوجی امداد میں خاطر خواہ اضافہ کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ نیٹو کے سپریم کمانڈر تھے تب بھی طالبان کیلئے پاکستان کی مدد نیٹو کیلئے درد سر تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو ایک پیکج کے تحت امداد اور مراعات دی جائیں جن کے بدلے وہ طالبان کی مدد ترک کرے اور با لآخر یہ مدد بالکل ختم کر دے۔ اس مقصد کیلئے ایک مربوط پالیسی تشکیل دی جائے۔ تیسرے اقدام کے طور پر ، امریکہ پاکستان میں ’’سافٹ پاور‘‘ کو فروغ دے۔ 2005 کے تباہ کن زلزلہ کے بعد امریکہ کی امداد نے پاکستان کے اندر امریکی تشخص کو بہت بہتر بنایا۔ اب بھی ملک کی سماجی و معاشی ترقی، بالخصوص، تعلیم ، صحت جیسے شعبوں میں فراخدلانہ امداد مثبت اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ چوتھا اقدام یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اپنی مذکورہ کوششوں کو عالمی شراکت کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ اس سلسلہ میںوہ برطانیہ اور جرمنی کے علاوہ عالمی اداروں سے بھی مدد لے سکتا ہے۔بھارت کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ، پاکستان جیسی بڑی اور اہم ریاست پر وقت صرف کرنا، آئندہ چند برسوں میں عالمی امن کیلئے بہت مفید ثابت ہو گا۔

ای پیپر-دی نیشن