بیوروکریسی کے بااثر افسروں نے ترقی سے مشروط روٹیشن پالیسی ہوا میں اُڑا دی
اسلام آباد (مسعودماجدسید/خبر نگار) سول بیوروکریسی کے بااثر افسران نے ترقی سے مشروط روٹیشن پالیسی کو ہوا میں اڑا دیا اور اپنے آبائی ضلع یا صوبہ میں کم از کم پانچ سال لازمی تعیناتی کی پرواہ کئے بغیر اپنے اثرورسوخ سے باقاعدگی کیساتھ ترقی لیتے ہوئے اب گریڈ بیس اور اکیس تک بھی پہنچ گئے ہیں لیکن بیشتر افسران ایسے بھی نکلے جو ساٹھ سال مدت ملازمت پوری کر نے کے بعد ریٹائر بھی ہو گئے لیکن وہ اپنی پوری سروس میں کسی دوسرے صوبے میں نہیں گئے‘ اسی طرح سے موجودہ دستیاب دستاویزات کے مطابق پاکستان ایڈمسنٹڑیٹو سروس(پاس) اور پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی)کے گریڈ بیس اور اکیس کے چالیس کے قریب ایسے افسران بھی سول بیورو کریسی میں موجود ہیں جنہوں نے سول سروس میں گریڈ سترہ میں بطور سی ایس پی افسر شمولیت اختیار کی لیکن آج تک ایک دن بھی انھوں نے اپنے آبائی ضلع یا صوبے میں تعیناتی نہیں ہونے دی حالانکہ ترقی کے لئے لازمی قرار دیا گیاہے کہ ہر سی ایس پی افسر پر لازم ہے کہ وہ ایک تو دوسرے صوبوں میں بھی خدمات انجام دیں او رپھر اپنے آبائی علاقوں میں یا آبائی صوبہ میں بھی کم از کم پانچ سال علاقے کی خدمت کریں لیکن ان افسران نے ایک روز بھی علاقے کی کو ئی خدمت نہیں کہ ان افسران میں معروف افضل، مومن آغا، ڈاکٹر کلیم امام، ملک قیصر مجید جیسے نمایاں افسران شامل ہیں۔ دستاویزی شواہد کے مطابق جن افسران نے اپنے سروس کئرئیر میں اپنے آبائی صوبے یا ضلع میں ایک بھی دن کام نہیں کیا ہے ان میں پاکستان ایڈمسنٹریٹو سروس (پاس)کے گریڈ اکیس کے 2 افسران میں پنجاب ڈومی سائل سے تعلق رکھنے والی ایڈیشنل سیکرٹری ایوان صدر شائستہ سہیل، پاکستان ایڈمسنٹڑیٹو سروس (پاس)کے گریڈ بیس کے 14 افسروں میں ایم ڈی نیشنل بک فاونڈیشن ملک قیصر مجید (پنجاب)، خیبر پختونخوا، نیشنل سکول آف پبلک پالیسی میں تعینات ارم بخاری (سندھ)، حکومت خیبر پختونخوا میں تعینات جمال یوسف(ڈومی سائل آزاد جموں و کشمیر)،وزارت تجارت و ٹیکسٹائل انڈسٹریز کے ماتحت ادارہ ٹریڈ ڈویلپمینٹ اتھارٹی پاکستان میں تعینات شیر افگن خان(کے پی کے)،چیف کمشنر اسلام آباد وفاقی علاقہ ذوالفقار حیدر خان (پنجاب)، لاہور میں تعینات صوبائی کمشنر مردم شماری عارف انور بلوچ (سندھ)، سٹیبلشمینٹ ڈویژن میں او ایس ڈی سمیرا صمد(کے پی کے)،وزرت تجارت کے ذیلی ادارہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر خاقان مرتضیٰ(گلگت و بلتستان)،پنجاب حکومت میں خدمات دینے والے افسر مومن آغا (سندھ)،چیرمین پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز ریگولیٹری اتھارٹی (پیرا)مصدق احمد خان(کے پی کے)،ڈی جی فیڈرل گورنمینٹ ایمپلائز ہاوسنگ فاونڈیشن وقاص علی محمود (اے جے کے)، اسی طرح سے پولیس گروپ گریڈ اکیس کے دو افسروں میں سندھ ڈومی سائل کے کیپٹن(ر) احمد لطیف اور پنجاب ڈومی سائل کے واجد ضیا شامل ہیں اور اسی پولیس گروپ کے گریڈ بیس کے19افسروں میں غنی الرحمان وزیر(فاٹا)،ڈاکٹر کلیم امام (سندھ)، عالم محسود(پنجاب)، محمداشرف (جی بی)،صلاح الدین خان (فاٹا)کیپٹن(ر) عثمان زکریا(پنجاب)، احمد مکرم(پنجاب)،سلطان اعظم تیموری(سندھ)،شاہدحیات خان(کے پی کے)، صادق کمال خان اورکزئی (فاٹا) محترمہ حلینا اقبال سعید(بلوچستان)، زبیر ہاشمی(پنجاب)لیفٹیننٹ (ر) جان محمد (پنجاب)، محمدسعید (فاٹا)، صابر احمد (سندھ)، فلائٹ لیفٹیننٹ (ر) خالد خٹک (کے پی کے)، طارق عباس قریشی (سندھ)، ادریس احمد(اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری)، اول خان (فاٹا) شامل ہیں۔ یہاں بھی واضح کیا جارہا ہے کہ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں جہاں کوئی بھی افسر جانا گوارا نہیں کرتا یہاں بھی افسروں کو تعیناتی کے لئے پرکشش مراعاتی پیکج کی پیشکش کے باوجود افسران وہاں جانے سے کتراتے ہیں، حالانکہ یہ بھی روٹیشن پالیسی اور پروموشن پالیسی کا حصہ ہے۔