• news
  • image

ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی مثبت رپورٹ

دنیا بھر میں کرپشن کی صورت حال کے بارے میں غیر ملکی ادارہ، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اپنی جائزہ رپوٹس مرتب کرتا رہتا ہے، نئے سال کی جو رپورٹ جاری کی گئی ہے، اس کے مطابق پاکستان میں کرپشن خوری کی لت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ رپورٹ ایک مجموعی تاثر کی بنا پر مرتب کی جاتی ہے اور اسے تحقیقی معیار کی رپورٹ نہیں کہا جا سکتا مگر اس ادارے کی ساکھ ایسی ہے کہ ا س کی رپورٹوں پر اعتبار کیا جاتا ہے اور انہیں کبھی کسی نے چیلنج بھی نہیں کیا۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر شائع ہوئی ہے جب پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں پانامہ کا ہنگامہ برپا ہے اور کرپشن کو سکہ رائج الوقت سمجھا جا رہا ہے، اس کے باوجود اس رپورٹ کو پاکستان کے تناظر میں حوصلہ افزا خیال کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک پانامہ کا قصہ ہے تو یہ ماضی کی بات ہے اور ابھی تک بات الزامات سے آگے نہیں بڑھی، سپریم کورٹ تمام فریقوں کے وکلا سے ایک ہی استدعا کر رہی ہے کہ کوئی ثبوت بھی تو پیش کرو، محض سنی سنائی باتوں پر فیصلہ تو نہیں کیا جا سکتا۔
دیکھا جائے تو پچھلے چند برسوں میں ملک کے اندر کرپشن کا وہ کھیل نہیں ہو رہا جو زرداری یا اس سے پہلے مشرف دور میں دیکھنے کو ملا، تب مشہور تھا کہ ہر کوئی ایک کروڑ ڈالر کی دیہاڑی لگا رہا ہے اور وزرا تھیلے بھر بھر کے لوٹ مار کی کمائی بیرون ملک لے جا رہے تھے۔
ملک میں ان دنوں میگا پراجیکٹس پر کام جاری ہے، ان میں مال بنایا جا سکتا ہے مگر میاں شہباز شریف ایک سے زائد مرتبہ واضح کر چکے ہیں کہ صر ف اورنج ٹرین کے منصوبے کے لئے انہوں نے چینی حکومت سے کہا کہ وہ اس کی بڈنگ کریں گے، چین نے ہر چند اعتراض کیا کہ اسٹیٹ ٹو اسٹیٹ منصوبوں کی بڈنگ نہیںکی جاتی مگر شہباز شریف نے انہیں قائل کیا کہ وہ ہر معاملے کو شفاف رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے اصرار پر بڈنگ تو ہو گئی مگر اس کے بعد بھی شہباز شریف نے فرمائش کر دی کہ انہیں یہ قیمت بھی منظور نہیں، اس میں مزید کمی کی جائے، چینی حکومت نے پھر کہا کہ ایک تو بڈنگ ہی نہیں ہو سکتی تھی، اوپر سے آپ سب سے کم نرخ بھی منظور کرنے کو تیار نہیں ہیں، بہرحالی چینیوں کو شہباز شریف کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے، اصل میں شہباز شریف کی کوشش یہ تھی کہ ایک تو یہ سودا ٹرانسپیرنٹ رہے، دوسرے ملک کو جس قدر مالی فائدہ پہنچایا جائے، اس کی کوشش کر لی جانی چاہئے، وزیراعظم کئی بار اپنی تقریروں میں بتا چکے ہیں کہ ان کی حکومت نے مختلف منصوبوںکے معاملات طے کرتے ہوئے پاکستان کو کتنے ارب کا فائدہ پہنچایا، ظاہر ہے ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ چینیوں کو بھی مال کمانے کی کھلی چھٹی دیتا اور اپنی جیب بھی بھر لیتا مگر بظاہر نواز شریف اور شہباز شریف نے ایسا نہیں کیا۔
ایک زمانہ تھا جب ملک میں ایک حکمران کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہا جاتا تھا، پھر ایک دور آیا کہ اسی کا نام مسٹر ساٹھ پرسنٹ پڑ گیا۔ میڈیا میں غیر ملکی محلات اور سوئس اکاﺅنٹوں کے چرچے ہونے لگے۔ مگر یہ سب وائٹ کالر کرائم تھا جسے عدالتوں میں ثابت نہیںکیا جا سکتا تھا، چنانچہ پاکستان کو لوٹنے والوں نے اپنے اوپر ہاتھ نہ ڈالنے دیا۔
ایف بی آر ٹیکس اکٹھا کرنے والا ادارہ ہے مگر اس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق تاجروں اور صنعتکاروں نے اربوں کے ٹیکس چوری کئے ہیں اور یہ حرام کی دولت بیرونی ملکوں میں جمع کرا دی ہے۔
موجودہ وزیر خزانہ اسحق ڈار کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے عالمی معاہدوں میں شرکت کی جائے جن کی بدولت غیر ملکی بنکوں سے معلومات اکٹھی کی جا سکیں۔ وہ او ای سی ڈی کے معاہدے میں شامل ہو چکے ہیں اور اب اس سے آگے کا کام جاری ہے کہ جو لوگ ٹیکس چوری کرتے ہیں، ان پر ہاتھ ڈالا جا سکے، وزیر خزانہ نے مجھے بتایا ہے کہ بہت جلد وہ ایسے ایک عالمی معاہدے پر دستخط کرنے جائیں گے۔
حکومت کرپشن اور لوٹ مار کے خاتمے میں کس قدر سنجیدہ ہے، اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی حکومت نے الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بند کر دیا ہے، حکومت پاکستان نے اس امر پر شدید احتجاج کیا ہے اور اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے معلومات مانگ لی ہیں۔ واضح رہے کہ برطانوی پولیس نے الطاف حسین کے گھر پر چھاپہ مار کر بے اندازہ نقدی برآمد کی تھی، اس پر کچھ عرصہ تحقیقات کا ڈرامہ رچایا گیا، کوئی عام آدمی ہوتا تو اب تک جیل کی ہوا کھا رہا ہوتا مگر الطاف حسین کے ساتھ حکومت برطانیہ کے نرم رویئے سے ثابت ہوتا ہے کہ دیگر ممالک کھلی لوٹ مار کی کس قدر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
ان دنوں پاکستان کے حکمرانوں کے خلاف ایک ہنگامہ برپا ہے لیکن اگر ان حکمرانوں کا دامن صاف نہ ہوتا تو وہ دوسرے چوروں کے پیچھے کیوں یوں ہاتھ دھو کر پڑتے، میاں شہباز شریف تو ریکارڈ پر ہیں کہ وہ سابق حکمرانوں کی لوٹ مار کی ایک ایک پائی واپس لائیں گے اور انہیں لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے، ایسی باتیں وہی کہہ سکتا ہے جو خود شیشے کے گھر میں نہ بیٹھا ہو۔
ان دنوں عمومی طور پر کسی کے ہونٹوں پر کرپشن کی نئی کہانی نہیں، عام دفتروں اور تھانے کچہریوں کا تو وہی برا حال ہے مگر حکومت کی اعلیٰ ترین سطح پر نہ تو ٹھیکے فروخت ہوتے ہیں، نہ نوکریاں بیچنے کی خبریں سننے کو ملتی ہیں، حکومت کا فرض ہے کہ وہ محکمہ انٹی کرپشن، ایف آئی اے ا ور نیب کو چوکس کرے اور انہیں بڑی حد تک خود مختاری بھی دے تاکہ وہ کسی اعلیٰ شخصیت کو شکنجے میں لینا چاہیں تو اس کی رہائی کے لئے اوپر سے سفارشیں نہ آئیں، نہ دباﺅ ڈالا جائے۔ میاں شہباز شریف نے تو بیکری کیس میں اپنے داماد کی گرفتاری بھی ڈلوا دی تھی۔ اگر یہی سلوک دوسرے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ روا رکھا جائے اور ارکان اسمبلی کو بھی کوئی ڈھیل نہ دی جائے تو بتدریج کرپشن کو نچلی سطح پر بھی حرف غلط کی طرح مٹایا جا سکتا ہے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

epaper

ای پیپر-دی نیشن