مقبوضہ کشمیر: پنڈتوں کیلئے الگ بستیوں کے فیصلے کیخلاف مظاہرہ، پچھلے سال 82 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے: وزارت داخلہ
سرینگر (نیوز ایجنسیاں) مقبوضہ کشمیر میں تاجروں اور ٹرانسپوٹروں کے متحدہ پلیٹ فارم کشمیر اکنامک الائنس نے کٹھ پتلی اسمبلی کی طرف سے کشمیری پنڈتوں کی واپسی کے حوالے سے قرارداد منظور کرنے اور پنڈتوں کے لیے علیحدہ بستیوں کے قیام کے سلسلے کو کشمیر کی مذہبی رواداری پر کاری ضرب قرار دیتے ہوئے اس کیخلاف سرینگر کے لالچوک میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے شیخ باغ سے لالچوک تک احتجاجی جلوس نکالا اور علیحدہ پنڈت کالونیاں نامنظور‘‘، ’’جی ایس ٹی کو واپس کرو‘‘ اور ’’مسئلہ کشمیر کو حل کرو‘‘ کے نعرے لگائے۔ اس موقع پر کشمیر اکنامک الائنس کے شریک چیئرمین فاروق احمد ڈار نے کہا کہ بھارتی حکومت اور کٹھ پتلی انتظامیہ ایک منصوبے کے تحت کشمیر میں پنڈت کالونیوں کے قیام پر عمل پیرا ہے۔ قابض انتظامیہ جموں و کشمیر کی خصوصی شناخت اور حیثیت کو دائو پر لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دریں اثناء کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے اپنے بیان میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں پر زور دیا کہ وہ کشمیری نظربندوں کی حالت زار کا نوٹس لیں اور ان کی فوری رہائی کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ نام نہاد کشمیر اسمبلی کے رکن جاوید مصطفیٰ میر نے ایوان میں اعتراف کیا کہ کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ جائز ہے اوراس قسم کے تبصرے کو ایوان کی کاروائی سے حذف نہیں کیا جاسکتا۔ اے پی پی کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں جموں کشمیر ماس موومنٹ کی سربراہ فریدہ بہن جی نے جیلوں میں غیر قانونی طور پر نظر بند کشمیریوں کی حالت زار پر سخت تشویش ظاہرکرتے ہوئے انکی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ مزید براں مقبوضہ کشمیر میںبھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ نام نہاد اسمبلی کے رکن رویندر رینا نے سرینگر میں اقوام متحدہ کے دفتر کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ علاقے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ نام نہاد اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے کہا کہ وہ کشمیر میں شراب پر مکمل پابندی لگائے۔ دریں اثناء کٹھ پتلی انتظامیہ نے کہا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں پیلٹ گن کے استعمال پر پابندی لگانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ گزشتہ سال تحریک انتفاضہ کے دوران پیلٹ گن سے زخمی ہونے والے سینکڑوں نوجوانوںکو ہسپتالوں میں داخل کیا گیا تھا۔ ادھر بھارتی شہر ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر راجندرن نارائین جنہوں نے جموں و کشمیر میں رائے شماری کے حق میں ایک قرارداد پر دستخط کئے تھے، نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ ڈاکٹر نارائین نے مقبوضہ علاقے میں بھارتی مظالم کی بھی مذمت کی ہے۔ آئی این پی کے مطابق بھارتی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال 2016ء کے دوران مقبوضہ کشمیر میں 82 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے جو گزشتہ 8 سالوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔ اس سے قبل 2008 میں 85 فوجی مارے گئے تھے۔