لوگ ریاست کے تحت غائب ہوتے ہیں کسی میں سوال کرنے کی ہمت نہیں: رضا ربانی
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ گھٹن کے اس دور میں شعرا ادیب اور دانشور سوسائٹی کیلئے مشعل راہ ہیں، معاشرے کو زندہ رکھنے کی شمع کو اسی طبقے نے روشن کر رکھا ہے، شاعری اور کتاب کے اثرات ذہنوں پر مرتب ہوتے ہیں اور یہ خیالات کو زندہ رکھتے ہیں مگر آج مجھے فکر لاحق ہے پروین شاکر جیسی بڑی شاعرہ کی اچانک موت کے بعد اس خلا کو کیوں نہ پورا کیا جا سکا، میرا سارے معاشرے سے سوال ہے ہم اس قسم کے شاعر اور ادیبوں کو جنم دینے میں کیوں نہ کامیاب ہو سکے۔ پاکستان میں بے حسی کا یہ عالم ہے ریاست کے تحت لوگ غائب کر دیئے جاتے ہیں، میرے سمیت کسی کو ریاست سے اس بارے میں سوال کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اس پر عدالت میں لا کر مقدمہ چلایا جائے، پاکستان کے آئین قانون کے تحت جواب دہ بنایا جائے۔ ریاست نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے معاشرے میں فرقہ واریت کا زہر گھولا، تشدد کو فروغ دیا تاکہ اپنی اجارہ داری اور تسلط کو برقرار رکھ سکے، معاشرے کو اتنا خوفزدہ کردیا ہم فیض احمد فیض، حبیب جالب اور پروین شاکر جیسے شاعروں اور ادیبوں کا متبادل نہ لا سکے، یہ انتہائی فکر کا مقام ہے، متبادل تو دور کی بات ہے ان کے ہم پلہ لوگ پیدا نہ کر سکے۔ اسلام آباد میں اردو شاعری میلہ 2017میں بحیثیت صدر مجلس خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا معاشرہ جہاں جا رہا ہے جب اسے دیکھتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، ریاست کی پالیسیاں راستہ متعین کرتی ہیں اور ریاست نے ایسی پالیسی اختیارکی جس نے ادب دانش شاعری کے کلچر کو قتل کیا، کتابوں اور کتابیں پڑھنے کے کلچر کو ختم کیا کیونکہ ریاست کو اپنی پالیسیوں کے حوالے سے فکر تھی اس ادب ثقافت اور دانش کے فروغ کے نتیجے میں نئی سوچ پیدا ہوگی جس میں برداشت پر مبنی معاشرہ تشکیل پاتاہے۔ ریاست کو شاید یہ چیزیں قابل قبول نہیں تھیں اور اس نے ادب اور شاعری کا گلہ ہی گھونٹ دیا۔ رضا ربانی نے کہا ریاست نے اپنی آمرانہ سوچ، اجارہ داری اور ریاستی تشدد اور ریاستی تسلط کے خلاف تحریک کو روکنے کیلئے شاعری اور ادب سے ملنے والے جذبوں کو قتل کیا کیونکہ ریاست کو معلوم تھا ان جذبوں کو جلا ملتی رہی اور ملک میں کافی ہائوسز کا کلچر فروغ پاتارہا تو وہاں لوگ بیٹھ کر گفتگو کریں گے جو نئی سوچ نئے تقاضوں کے فروغ کا سبب بنے گی، اس لئے ریاست نے تشدد اور جبر پر مبنی پالیسیاں اختیار کر لیں۔ انہوں نے کہا ریاست نے تشدد کے فروغ اور معاشرے میں فرقہ واریت کا زہر گھولا تو معاشرہ ہی مر گیا، احساس بھی نہ رہا اور ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں ریاست نے جب جان بوجھ کر ان حالات کو پیدا کیا تو ہم جاگے بھی نہ، ریاست میں جبر کے اس ماحول کو حادثاتی طور پر فروغ نہیں ملا بلکہ منظم طریقے سے معاشرے کو پسماندہ رکھنے کیلئے جبر کے اس ماحول کی سرپرستی کی گئی اور اپنی اس اجارہ داری کو برقرار رکھنے کیلئے دیہی علاقوں میں سڑکیں اور بنیادی سہولیات کی دستیابی کو ممکن نہ بنانے دیا تاکہ لوگ مسائل کا شکار رہیں اور ان میں نئی سوچ کو فروغ نہ مل سکے اور شہروں میں ریاست نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے نفسانفسی کا ماحول پیدا کر دیا اور یہ خوف اتنا طاری ہو چکا ہے ہم اپنے سایوں سے بھی ڈرتے ہیں تاہم ان سب حالات کے باوجود معاشرے میں ابھی تک وہ احساس اور جذبہ باقی ہے وہ سوچ اور شعور رکھتے ہیں اور اسی حوصلہ افزاء ماحول کے تحت میں پاکستان کے تمام شاعروں اور ادیبوںسے کہنا چاہتا ہوں کیا وہ ریاست کے سامنے اس سوال کو کرسکیں گے لوگوں کو جبری طور پر کیوں اٹھایا جاتا ہے؟ تقریب میں شاعری کی بہترین کتابیں لکھنے والوں کو ایوارڈ دیئے گئے۔