بھارتی فلموں پر پابندی پارلیمنٹ نے لگائی وہی ختم کرسکتی ہے: فلمی شخصیات
لاہور (سیف اللہ سپرا) بھارتی فلموں پر پابندی 1965ء میں پارلیمنٹ نے لگائی تھی اور یہ پابندی ختم بھی پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کے سوا وزیراعظم یا کوئی بھی ادارہ اس پابندی کو ختم نہیں کرسکتا۔ حکومت نے حال ہی میں جو بھارتی فلموں کے حوالے سے کمیٹی بنائی غیر قانونی ہے اور بھارتی فلموں کی نمائش کا فیصلہ بھی غیر قانونی ہے۔ اگر بھارتی فلموں کی نمائش کی گئی تو یہ عمل بھی غیر قانونی ہوگا۔ حکومت کو بھارتی فلموں کی تو بہت فکر ہے، پاکستان کی فلم انڈسٹری، جو انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کو خیال کیوں نہیں آیا۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان فلم انڈسٹری کی اہم شخصیات ہدایت کار سید نور، ہدایتکارہ سنگیتا، فلمساز سہیل خان، فلمساز و تقسیم کار چودھری اعجاز کامران اور سینئر اداکار مصطفٰی قریشی نے کیا۔ پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید نور نے کہا کہ بھارتی فلموں کی ریلیز کی دوبارہ اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ حکومت صرف بھارتی فلموں اور سینما کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے بارے میں نہیں سوچتی۔ میرا وزیراعظم سے سوال ہے کہ وہ بھارتی فلموں کے حوالے سے اس قدر کیوں بے چین ہیں۔ سینئر اداکار مصطفٰی قریشی نے کہا کہ کیا بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم ہو گیا ہے۔ کیا بھارت نے پاکستانی فنکاروں اور پاکستانی فلموں کو بھارت میں داخل ہونے کی اجازت دیدی ہے۔ کیا مقبوضہ کشمیر میں مظالم ختم ہوچکے ہیں۔ کیا مودی سرکار پاکستان کے خلاف سازشیں نہیں کر رہی۔ جب ایسا سب کچھ ہو رہا ہے تو پھر حکومت کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اس نے پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت دیدی۔ فلمساز سہیل خان نے کہا کہ بھارتی فلموں پر پابندی حکومت نے 1965ء میں پارلیمنٹ نے لگائی تھی ا ور یہ پابندی پارلیمنٹ ہی ختم کرسکتی ہے لہٰذا بھارتی فلموں کی ریلیز کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی غیر قانونی ہے۔ فلمساز و تقسیم کار اعجاز کامران نے کہا کہ حکومت نے بھارتی فلموں کیلئے تو فوراً کمیٹی بنا دی ہے اور اس نے نمائش کی اجازت بھی دیدی ہے۔ حیرت ہے پاکستان کی فلم انڈسٹری جو کئی برسوں سے توجہ کی طلبگار ہے کی طرف حکومت توجہ کیوں نہیں کر رہی۔ اداکارہ و ہدایتکارہ سنگیتا نے بھارتی فلموں کی نمائش کے حوالے سے حکومتی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنی فلموں کے بارے میں بھی کچھ سوچے۔