پرویز الٰہی کی مہر عوام کے دلوں پر اور ایک چوٹ بھی
پہلی بار ایک سچی بات سنی ہے اور وہ ہی چودھری پرویز الٰہی کے منہ سے۔ اس کی تردید کوئی نہیں کر سکتا ، اس لئے کہ پرویز الٰہی کو صرف پانچ سال ملے، شیر شاہ سوری کی طرح ان کی ٹرم لمبی نہیں تھی، میاں شہباز شریف کی حکومت پنجاب میں تب سے ہے جب سے ان کے بڑے بھائی میاںنواز شریف یا ایک شریف کارکن غلام حیدر وائیں یا وہ خود اس صوبے کے چیف منسٹر بنے۔ شہباز شریف کو براہ راست حکومت کرتے بھی تیسری ٹرم پوری ہونے والی ہے۔ بلا واسطہ حکومت کرتے ہوئے انہیں تیس سال کے قریب ہو چلے ہیں، اس لئے اگر پرویز الٰہی ان کو چیلنج کرتے ہیں تو ٹھیک ہی کرتے ہیں کہ آپ تختیاں لگانے کی دوڑ لگا رہے ہیں جبکہ میری مہر عوام کے دلوں پر ہے، یہ کہہ کر پرویز الٰہی نے اپنی حکومت کے کارنامے گنوائے۔ وہ سارے کارنامے تو نہیں گنو ا سکے لیکن جو گنوائے، وہ دیرپا ہیں، عوام کے لئے ہیں، عوام بھی وہ جو عام لوگ ہیں، جن کو کوئی نہیں پوچھتا، پرویز الٰہی نے ان کو عزت دی، یعنی عزت نفس دی، ان کو سہولتیں فراہم کیں، ان کی زندگی آسان بنائی۔
چودھری صاحبان اقتدار میں ہوں تو وہ کچھ لوگوں سے دور ہو جاتے ہیں ، ایسے ہی ایک دور میں، میںنے ان پر متواتر چھ کالم لکھے کہ پرویز الٰہی چھا گئے، ان کا فون آیا کہ ان کے بیٹے راسخ الٰہی نے بتایا ہے کہ میں نے ان کے بارے میں اچھا اچھا لکھا ہے۔ حکمران خود نہیں پڑھتے اور عجب بات یہ ہے کہ ان کا محکمہ اطلاعات کچھ لوگوں کی تحریریں ان تک پہنچاتا بھی نہیں، ہاں کبھی خلاف لکھ دو تو صبح صبح فائل پیش کر دیتے ہیں تاکہ اس کالم نگار کو حکمرانوں سے دور کر دیا جائے۔ میں نے پچھلے چالیس برس میں بڑے قریب سے مشاہدہ کیا ہے کہ سرکاری اہل کار کس طرح حکمرانوں کو لکھنے والوں سے دور کرتے ہیں۔ میرے مرشد مجید نظامی بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے بھٹو کو اپوزیشن لیڈر کے طور پر ابھارنے میں اہم کردارا دا کیا مگر جیسے ہی بھٹو نے حکومت سنبھالی تو ایک روز میرے مرشد نے انہیں بتایا کہ اب ا ٓپ سے دوستی ا ور قربت کا رشتہ قائم نہیں رہ سکتا، ا س لئے کہ آپ فون کرتے ہیں تو میں خود فون اٹھاتا ہوں اور جب میں فون کرتا ہوں تو مجھے ایک ہی جواب ملتا ہے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں، فون سے دور ہیں، نوٹ کر لیا ہے، فرصت کے وقت جوابی کال کر لیں گے۔ مگر کبھی جوابی کال نہیں آتی۔یہ بھی ایک ہتھکنڈہ ہے حکومت اور میڈیا کو دور کرنے کا۔ مگر حکمرانوں کواس باریک کام کی سمجھ نہیں آتی، وہ نئے درباریوں میں گھر جاتے ہیں۔ میں یہاں یہ نہیں بتانا چاہتا کہ مرشد نظامی نے میرے ساتھ آخری ملاقات میں آج کے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات پر کیا تبصرہ کیا تھا، زبان سے نہیں صرف اشارے سے کیا تھا۔
پرویز الٰہی کے خلاف میںنے ایک بار لکھا کہ صوبے کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، ان کے سیکرٹری مواصلات کا فون آیا کہ وزیراعلیٰ کا حکم ہے کہ آپ کو سڑکوں کے سارے منصوبے بتاﺅں اور اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ جب تفصیل سنی تو میں دنگ رہ گیا، پرویز الٰہی اور کچھ نہ کرتے تو انہوںنے صوبے میں سڑکوں کا جو جال بچھایا، وہی انہیں زندہ جاوید رکھنے کے لئے کافی تھا۔ میرے شہر قصور اور لاہور کے درمیان ا یک ٹوٹی پھوٹی سڑک کسی انگریز نے بنا ئی تھی، اس پر دھکے کھا کھا کر زندگی گزر گئی، میرا چھوٹا بھائی رضااللہ طالب جو خود بھی ایک صحافی تھا وہ اس سڑک پر پھنسی ہوئی ٹریفک کی وجہ سے بر وقت لاہور کے کسی ہسپتال نہ پہنچ سکا اور رستے ہی میں اللہ کو پیارا ہو گیا مگر پرویز الٰہی نے اس سڑک کو دو رویہ اور وسیع کر دیا اور اس کے درمیان میں اتنی جگہ چھوڑی کہ اس پر ٹرین کی پٹری بچھا کر لاہور کی ٹریفک کو آسان بنایا جائے، اسی جگہ کو استعمال کر کے شہباز شریف نے میٹرو بس کا روٹ بنایا۔ پرویز الٰہی نے یہ سڑک نہ بنائی ہوتی تو میٹرو اس پر اب تک نہیں بن سکتی تھی۔ یہ وہ منصوبہ ہے جس کا میں عینی شاہد ہوں اور ستر برس کے مشاہدات میرے ذہن میں ہیں۔
بات سڑکوں تک محدود نہیں ہے۔ 1122 کی سروس شروع کر کے پرویز الٰہی نے دکھی انسانیت کی وہ خدمت کی جس کی کہیں اور مثال نہیں ملتی۔ لاہور کے ہسپتالوں پر ایک نظر ڈال لیجئے، جنرل ہسپتال، سروس ہسپتال گنگا رام ہسپتال، جناح ہسپتال اور میو ہسپتال کی ایمرجنسیوںکو نئے سرے سے تعمیر کیا، ان میں ادویہ مفت ملتی تھیں، ہسپتالوں کے ایڈمنسٹریٹر لاﺅڈ سپیکر پر اعلان کرتے تھے کہ کسی کو دوائی باہر سے خریدنے پر مجبور کیا گیا ہو تو وہ پیسے واپس وصول کر لے۔
تعلیم کے میدان میں تو جھنڈے ہی گاڑ دیئے۔ سرکاری سکولوں میں بچوں کو مفت کتابیں اور فیس معاف۔ یہ وہ دور تھا جب پرائیویٹ سکولوں والے پرویز الٰہی کو، کوستے تھے کہ ان کی طرف کوئی رخ نہیں کرتا تھا۔
پرویز الٰہی نے صوبے کے بڑے چھوٹے شہروںمیں ہسپتال قائم کے، ملتان تو ملتان ہے، وزیرآباد میں بھی ہسپتال، ان منصبوبوں کو اگلی حکومت نے لٹکا دیا، آج جب خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق لاہور سیالکوٹ موٹرو ے کا ذکر کر رہے ہیں تو وہ کیوں بھول گئے کہ اس منصوبے کی فائل تو پرویز الٰہی کے حکم سے کھلی تھی اور ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہچانے کے لئے عدلیہ تحریک چلائی گئی ا ور حکومت کو عضو معطل بنا دیا گیا، پھر کہا گیا کہ پرویز الٰہی تو منصوبے مکمل نہیںکر سکے، آج یہی کام عمران خان کی تحریک انصاف، مسلم لیگ ن کے ساتھ کر رہی ہے کہ کہیں آخری سال میں اس کی حکومت، بجلی کی پیداوار کے منصوبے پروان نہ چڑھا سکے۔
میں تو کہا کرتا ہوں کہ پرویز الٰہی ایک صوفی وزیراعلیٰ تھے، ان کی پبلسٹی کرنے والا کوئی نہ تھا اور کوئی تھا بھی تو پرویز الٰہی کو اپنا ڈھنڈورا پیٹنے کی کوئی خواہش ہی نہ تھی، یہ خاندان خاموشی سے کام کرنے کا عادی ہے۔ ڈھول نہیں پیٹتا۔
یہ کریڈیٹ پرویز الٰہی کا ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ کو زندہ رکھا۔ ایک سول منتخب حکومت کو فنکشنل رکھا اور پہلی بار اس حکومت نے آئینی ٹرم بھی مکمل کی۔ کسی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے چھاتے تلے کام کرنے کا گناہ انہوں نے تنہا نہیں کیا، بھٹو نے بھی کیا، نواز شریف نے بھی کیا۔ جاوید ہاشمی نے بھی کیا اور کس نے نہیں کیا، ہزاروں دیگر سیاستدانوںنے بھی کیا۔ چنانچہ مشرف کے ساتھ کام کرنا پرویز الٰہی کا ناقابل معافی گناہ نہیں ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی مشرف سے این آر او کیا اور جلا وطنی ختم کی۔ ایسا ہی فائدہ شریف برادران نے بھی مشرف سے اٹھایا۔ پنجاب کے صحافیوںکے لئے لاہور، ملتان اور پنڈی میں رہائشی سکیمیں بھی پرویز الٰہی نے تحفے میں دیں۔
عوام کے دلوں پر، پرویز الٰہی کی مہریں لگی ہوئی ہیں مگر میرے دل پر کچھ چوٹیں بھی لگیں۔ تین نومبر کی ایمرجنسی کی میں نے مخالفت کی اور اس کے صلے میں میرے گھر کو، میری بیگم اور تین بہو بیٹیوں کو دن دیہاڑے لوٹا گیا، یہی صدمہ میری بیگم کو موت کے منہ میں لے گیا۔
میں کس مہر کی طرف دیکھوں اور کس طرف نہ دیکھوں۔ آج پرویز الٰہی نے گوجرانوالہ ورکرز کنونشن میں ایک سچی بات کی، مجھے اس کی حمایت کرتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ سچ کا ساتھ دینے میں کوئی برائی نہیں۔ اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ پرویز الٰہی کے پیارے آج ان کاساتھ نہیں دیں گے۔