• news

وزیراعظم نے قطری سرمایہ کاری کا بتایا نہ حسین نواز نے پورا سچ بولا: سپریم کورٹ، جسٹس عظمت کو دل کی تکلیف، سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہو جائے گی: قانونی ماہرین

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ آپ13سال فلیٹس میں رہے انگلی تو آپ کی طرف اٹھے گی، بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے بچوں کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بہت بڑا جوا کھیل رہے ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 5نومبر کو قطری خط آیا جبکہ طارق شفیع کا بیان حلفی12نومبر کو آیا سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا حسین نواز کے مطابق لندن فلیٹس قطری سرمایہ کاری سے ملے۔ لندن فلیٹس کے لیے سرمایہ سے متعلق اگر کسی نتیجے پر پہنچیں تو حسین نواز نے پورا سچ نہیں بولا جبکہ سلمان اکرم راجہ نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر حسین نواز کچھ چھپا رہے ہوں تو اس کی سزا وزیراعظم کو نہیں دی جا سکتی، عدالت نے مقدمہ کی مزید سماعت آج تک کے لئے ملتوی کر دی۔ نیب پراسیکیوٹر نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس پر عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے کا ریکارڈ پیش کیا۔ جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ ایسے کتنے مقدمات ہیں جن میں اپیل دائر نہیں کی گئی جس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ ایسے لاتعداد مقدمات ہیں جن میں ججز کے فیصلے میں اختلاف کی وجہ سے اپیل دائر نہیں کی گئی۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ پراسیکیوٹر نیب نے اپیل دائر نہ کرنے کی تجویز دی تھی جس سے چیئرمین نیب نے اتفاق کیا۔ سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ فیکٹری کی فروخت سے بارہ ملین درہم ملے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا75فیصد حصص کی فروخت پر بینک کو قرضے کی ادائیگی ہوئی، بینک کے واجبات کس نے ادا کیے اور یہ بھی بتایا جائے کہ فیکٹری کے باقی واجبات کا کیا ہوا۔ وکیل نے جواب دیا کہ ہو سکتا ہے فیکٹری کے منافع سے واجبات ادا کیے گئے ہوں۔ طارق شفیع گلف فیکٹری کے روزانہ کے معاملات نہیں دیکھتے تھے وہ صرف بارہ ملین درہم کی رقم سرمایہ کاری کے لئے الثانی فیملی کو دینے کے گواہ تھے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ12ملین درہم کی رقم نقد وصول کی تھی یا بینک کے ذریعے فیکٹری کی فروخت سے یہ درہم ملے، یہ غیرمتنازع حقائق ہیں جو دستاویزات لائی گئیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا جسٹس گلزار احمد نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ فلیٹس شریف فیملی کے زیر استعمال کب آئے تو سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ شریف فیملی نے فلیٹس2006ء میں خریدے۔ جسٹس کھوسہ نے سوال کیا کہ وزیراعظم کی تقریر میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں چھ نئی فیکٹریاں لگانے کا ذکر ہے۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ جب پاکستان میں6نئی فیکٹریاں لگائیں تو گلف فیکٹری کی کیا ضرورت تھی وزیراعظم کی تقریر میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں۔ جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا دبئی فیکٹری کی مشینری حسین نواز نے خریدی تھی کیونکہ مشینری کی خریدوفروخت کا وزیراعظم نے کہیں ذکر نہیں کیا۔ دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ طارق شفیع کے بیان حلفی کے بعد دوسرے بیان حلفی میں بہتری لائی گئی۔ سلمان اکرم نے کہا کہ کیا ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرائل ہو رہا ہے طارق شفیع کو کٹہرے میں بلا کر سوالات پوچھ لیے جائیں۔ الثانی خاندان نے1993سے 1996میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے فلیٹس خریدے۔ رحمان ملک رپورٹ کے مطابق1993میں یہ کمپنیاں انس پارکر کے پاس تھیں جس پر جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا ہم رحمان ملک کی رپورٹ درست تسلیم کر لیں۔ کیا حماد بن جاسم سے پوچھ لیں انہوں نے یہ فلیٹس کب خریدے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ شریف فیملی کے بچے وہاں رہ رہے تھے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ شریف فیملی کے بچے وہاں کیسے رہ رہے تھے، سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ خاندانی تعلقات کی بدولت 1993سے ان فلیٹس میں حسن اور حسین رہتے تھے۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ شریف خاندان فلیٹس کا کرایہ ادا کرتا تھا، الثانی خاندان کے پاس لندن میں بہت سے فلیٹس ہیں، عدالت مفروضوں کو نہ دیکھے لندن فلیٹس التوفیق کمپنی کے پاس گروی نہیں رکھے گئے۔ عدالت کے استفسار پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ شیزی نقوی پاکستانی شہری اور التوفیق کمپنی کے ساتھ وابستہ ہے اس کے بیان کی نقل موجود ہے لیکن تصدیق شدہ نہ ہونے کی وجہ سے فائل نہیں کی جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ شیزی نقوی کے برطانوی عدالت میں پیش بیان حلفی کی نقل جمع کرا دیں ۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ التوفیق کیس سے ثابت نہیں ہوتا کہ شریف فیملی1999سے پہلے فلیٹس کی مالک تھی، انگلی میرے موکل کی طرف نہیں اٹھ سکتی وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کہتے ہیں فلیٹس2006ء میں خریدے گئے، آپ13سال فلیٹس میں رہے انگلی تو آپ کی طرف اٹھے گی۔ بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ بہت بڑا جوا کھیل رہے ہیں۔ اس پر سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں یہ جوا نہیں کھیلوں گا، جو معاملہ شیخ جاسم اور میاں شریف کے درمیان تھا اس کا علم نہیں۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ خدا کا خوف کرو، کیوں مردہ لوگوں کو شہادت کے لئے لا رہے ہیں، کیا آپ کو قانون شہادت کا پتہ نہیں۔ عدالتوں میں ایسی شہادتیں لائی جاتی ہیں، قطری شہزادہ خود مردہ لوگوں پر انحصار کر رہا ہے، کیا اب ہمیں مردے آ کر بتائیں گے۔ سلمان راجہ نے کہا عمران کی جانب سے کوئی ثبوت نہیں آیا۔ کرنسی اونٹوں پر لاد کر دینے کی بات بعید از قیاس ہے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، نقد رقم بھی لی جاسکتی ہے۔ الثانی خاندان کے پاس لندن میں بہت سے فلیٹس ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ میں نے ایک ریمارکس میں کتاب میں صفحہ گم ہونے کی بات کی تھی، جس پر ایک محترم رکن اسمبلی نے بہت ڈانٹا تھا کہ سارے ثبوت موجود ہیں اور نظر نہیں آرہے۔ حسین نواز کے وکیل نے کہا شیخ جاسم اور میاں شریف کے معاملے کی بالکل خبر نہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ بہت بڑا جوا کھیل رہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا وزیراعظم کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ جائیداد بچوںکی ہے ان سے پوچھا جائے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز سے پوچھا تو انہوں نے کہا وہ ٹرسٹی ہیں، اب آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس بھی کچھ نہیں، اگر عدالت کو کچھ نہیں بتانا تو کہہ دیں کہ جو کرنا ہے کر لیں۔ سلمان اکرم راجہ نے پاناما کیس میں دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نے عدالت میں کہہ دیا ہمارا کام الزام لگانا ہے، ان کی جانب سے کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت صرف غیر متنازعہ حقائق پر ہی فیصلہ دے سکتی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا میں جوا نہیں کھیلوں گا۔ جسٹس عظمت سعید نے دوران سماعت کہا کہ اگر آپ عدالت کو دائرہ سماعت پر واپس جانے کا کہیں گے تو میں اس کا حامی نہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ واپس جانے کو تیار نہیں آگے بڑھنے میں ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں۔ نئی عدالتی نظیر قائم کرنے سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔
اسلام آباد( محمدصلاح الدین خان )آئینی و قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ پانامہ کیس کے بنچ میں شامل جج جسٹس عظمت کے روبصحت ہونے تک پانامہ کیس کی سماعت نہیں ہوسکتی ، کیس غیر معینہ مدت کے لیئے ملتوی کردیا جائے گا،لارجر بنچ میں طاق ججز کی تعداد اس لئے رکھی جاتی ہے کہ کیس کا واضح اکثریتی فیصلہ کیا جاسکے، یہی وجہ ہے کہ چار ،چھ یا آٹھ ججز پر مشتمل لارجر بنچ نہیں بنائے جاتے، جوڈیشری کو جسٹس عظمت سعید جیسے عقلمند اور ذہین جج کی انتہائی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ انہیں صحت دے ایسے مقدمات چلتے رہتے ہیں ۔واضح رہے گزشتہ روز جسٹس عظمت سعید کو ہارٹ اٹیک ہوا اور راولپنڈی کے دل کے ہسپتال میں ان کو سٹنٹ ڈالا گیااور ڈاکٹرز نے انہیں چوبیس گھنٹے آرام کی ہدایت کی ہے۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہا ہے کہ چار رکنی بنچ کیس کی سماعت نہیں کرسکتا جج کے صحت یاب ہونے کا انتظار کیا جائے گا اس وقت تک کیس کو ملتوی کردیا جائے گا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کیس سیکرٹری جنرل آفتاب باجوہ نے کہا ہے کہ دوچاریا دس روز میں جسٹس عظمت سعید کی صحت سنبھل جائے تو پانامہ کیس کی سماعت شروع کی جاسکے گی ، ہم ان کی صحت کے لیئے دعاء گو ہیں، اگر چیف جسٹس اپنے اختیار کے تحت کوئی نیا بنچ کا رکن بناتے ہیں تو کیس کی سماعت بھی ازسر نو کی جائے گی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ جسٹس عظمت سعید قریبی دوست ہیں میں ان کی صحت کے لیئے دعا گو ہوں ، پانامہ بنچ ان کے آنے کے بعد مکمل ہوگا اس وقت تک کیس کو ملتوی کردیا جائے گا،نیا جج لگانے سے کیس کی سماعت بھی نئے سرے سے کی جائے گی جو ایک بہت مشکل کام ہوگا۔ ایڈووکیٹ صدیق بلوچ نے کہا کہ یہ قومی نوعیت کا کیس ہے مگر کوئی کیس کسی کی جان سے زیادہ اہم نہیں،فاضل جج کے روبصحت ہونے کے بعد ہی کیس کی سماعت ہوسکتی ہے۔پاکستان تحریک انصا ف کے وکیل فیصل چوہدری اور فواد چوہدری نے کہا ہے کہ انسانی جان ضروری ہے اگر پانامہ کیس کی سماعت چند دن نہیں ہوتی تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی،جسٹس عظمت سعید بہت اعلیٰ،سمجھدارجج ہیں ابھی جوڈیشری کو ان کی ضرورت ہے کیس میں ججز نے دن رات ایک کیا ہے پہلی ترجیح ہے کہ وہ صحت یاب ہوں اللہ تعالی ٰ ان کی فیملی کو ہمت دے ، ہماری دعا ہے کہ وہ جلد سے جلد تندرست اور توانا ہوجائیں۔جبکہ سپریم کورٹ کے ترجمان کے مطابق تاحال ایسا کوئی کورٹ آرڈر نہیں آیا ہے کہ پانامہ کیس کی صبح سماعت نہیں ہوگی یا ہوگی اس کا فیصلہ چیف جسٹس اور لارجربنچ کے سربراہ کریں گے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کو گزشتہ روز دل کی تکلیف شروع ہوئی تھی جس کے بعد انہیں انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی لے جایا گیا جہاں پر ڈاکٹروں نے فوری طور پر انجیو گرافی کے بعد انہیں سٹنٹ ڈال دیا ہے اور اب انکی حالت بہتر بتائی جارہی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن