اسد عمر اور زبیر عمر کیلئے سانجھا کالم؟
زبیر عمر کو گورنر سندھ بنا دیا گیا ہے اس سے پہلے وزیر مملکت تھے جسے عرف عام میں چھوٹا وزیر بھی کہتے ہیں۔ نجانے محمد زبیر اب اپنے نام کے ساتھ زبیر عمر کیوں نہیں لکھتے۔ وہ تحریک انصاف کے سرگرم سیاستدان اسد عمر کے بھائی ہیں۔ دونوں جنرل غلام عمر کے بیٹے ہیں۔ انہیں اب جنرل عمر کہا جاتا ہے ۔ ان کا نام جنرل غلام عمر ہے ۔
مجھے یاد آیا کہ جنرل یحییٰ خان اور جنرل عمر نے تحریک پاکستان کے مخلص کارکن اور قائداعظم کے ساتھی سردار شوکت حیات کو مجیب الرحمان شیخ کے پاس ڈھاکہ بھیجا تھا۔ وہاں 6 نکات پر تفصیلی بات ہوئی جس میں سے پانچ نکات شیخ مجیب نے واپس لے لئے۔ چھٹے نقطے کیلئے گفتگو ہو سکتی تھی۔ آدھا نقطہ تسلیم کر لیا جائے تو بات بن جائے گی۔ ہم نے مل کر پاکستان بنایا ہے۔ جھگڑے کی کوئی بات نہیں ہے یہ شیخ مجیب کے الفاظ تھے۔
ائرپورٹ پر شوکت حیات کی ملاقات جنرل غلام عمر سے ہو گئی۔ اس نے فوراً کہا… میں انگریزی زبان میں ان کے اپنے الفاظ تحریر کر رہا ہوں۔
Forget About East Pakistan. We Have Already Written Off East Pakistan. ان کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ چھوڑیں مشرقی پاکستان کے معاملے کو ہم پہلے ہی مشرقی پاکستان کے معاملے کو ختم کر چکے ہیں۔
اب سمجھ میں نہیں آتا کہ دونوں بھائیوں نے دو مختلف اور متصادم سیاسی پارٹیوں میں کلیدی عہدے کیوں سنبھالے ہوئے ہیں۔ کیا یہ فیصلہ دونوں نے مل کر کیا ہے اور کیا اس سے دونوں پارٹیوں کے پارٹی لیڈر پوری طرح واقف اور باخبر ہیں۔ دونوں بھائی ہیں تو آپس میں ملتے جلتے تو ہوں گے۔ بات چیت تو ہوتی ہو گی۔ سیاسی بات چیت بھی ہوتی ہو گی۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک سیاسی گھرانے نے اپنے خاندان کے کئی آدمی مختلف سیاسی پارٹیوں میں رکھے ہوئے تھے۔ کوئی پارٹی تو اقتدار میں آئے گی تو ہم اپنا کام چلا لیں گے۔ ایک آدمی کو احساس دلایا گیا کہ تم سیاسی پارٹیاں بہت بدلتے ہو۔ یہ سیاسی لوٹا پن اچھا نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ جناب! میں کب پارٹی بدلا، حکومت اپنی پارٹی بدل لیتی ہے۔ میں تو حکومتی پارٹی کا مستقل آدمی ہوں۔ کبھی اس پارٹی کے علاوہ کسی پارٹی میں جانے کا کبھی سوچا بھی نہیں ہے۔ اس نے بڑی معصومیت سے سوال کیا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کیا فرق ہے۔ اقتدار میں اپنا کردار بدل کر ہمیشہ مسلم لیگ ہی رہی ہے۔ تو پھر اسدعمر اور زبیرعمر میں کیا فرق ہے۔ اسد عمر تحریک انصاف کے ’’غیر سرکاری‘‘ وزیر ہیں۔ دونوں بھائی بھائی ہیں تو پھر نواز شریف اور عمران خان بھائی بھائی کیوں نہیں ہیں۔ نواز شریف اور صدر زرداری بھی آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
میرے پسندیدہ سیاسی ترجمان طلال چودھری نے پھر ایک زبردست ترجمانی کی ہے۔ نجانے کس کی ترجمانی کی ہے نواز شریف پاکستان کے مقبول ترین وزیراعظم ہیں۔ نجانے کیوں کبھی شہباز شریف کا نام نہیں لیتے۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ میری موجودگی میں کہا تھا کہ چودھری پرویزالٰہی پنجاب کے بہترین وزیر اعلی ہیں۔
یہ بات طلال صاحب نے کہی۔ کوئی اورکہتا تو ہم اس پر غور کرتے ہمارے نزدیک طلال چودھری ہر دور کے بہترین سیاسی ترجمان تھے بلکہ ہیں۔ دانیال عزیز نے ان کے ساتھ مل کرکمال کردیا ہے۔ مریم اورنگ زیب نے بھی یہ سیاسی یا ’’ترجمانی‘‘ تکون بہت خوبصورتی سے مکمل کی ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان کے حوالے سے کوئی ایک نام لینا مشکل ہے ورنہ دوسرے کے ناراض ہونے کے بہت چانس ہیں۔ اعجاز چودھری اپنے آپ کو ترجمان نہیں سمجھتے لیڈر سمجھتے ہیں۔ اگر ایازصادق کے مقابلے میں برادرم علیم خان کی بجائے انہیں ٹکٹ ملتا تو وہ بہت رونق لگاتے۔ تحریک انصاف میں ابھی عمران خان کو گمراہ کرنے والے بہت ہیں۔ وہ لوگ ایسے شاندار ہیں کہ پہلے انہیں گمراہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ضرورت آسانی سے پوری ہو جاتی ہے۔ ایک بہت باوقار خاتون ثروت روبینہ نے نعیم الحق کے بارے میں اچھی رائے دی تھی مگر بیچ میں فواد چودھری آ گئے۔ عمران خان کو کچھ تو خیال کرنا چاہئے کہ نعیم الحق کافی سینئر اور پرانے آدمی ہیں۔ فواد چودھری آدمی تو پرانے ہیں مگر تحریک انصاف میں نئے ہیں بلکہ نئے نئے ہیں۔ یہ فواد چودھری کی کامیابی ہے کہ وہ جہاں جاتے ہیں پرانے لگنے لگتے ہیں۔
طلال چودھری کو کون سمجھائے کہ جو آدمی اقتدار میں ہوتا ہے وہ کبھی مقبول نہیں ہوتا۔ مقبول ہمیشہ حزب اختلاف کے آدمی ہوتے ہیں۔ نواز شریف تین بار وزیراعظم بنے ہیں تو اس کے درمیان وقفہ آتا تھا جب وہ وزیراعظم نہیں ہوتے تھے۔ اب بھی بہت جلد وہ وزیراعظم نہیں ہوں گے اور پھر چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے۔ انشااللہ یہ ریکارڈ دی گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں لکھا جائے گا۔ پاکستان زندہ باد۔
کہتے ہیں کہ بھٹو بہت مقبول تھے مگر ان کے جنازے میں چند لوگ تھے۔ وہ جنرل ضیا کے مارشل لا کے بعد وزیراعظم نہیں رہے تھے مگر قسمت دیکھیں کہ ان دنوں کوئی بھی وزیراعظم نہیں تھا۔ جنرل ضیا صدر تھے۔ بھٹو صاحب اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھتے تھے۔
بے نظیر بھٹو کا جنازہ بہت بڑا تھا وہ دو بار وزیراعظم بنی تھیں شہادت پائی تو وزیراعظم نہ تھیں۔ عمران خان تو بقلم خود وزیراعظم ہوں گے تو آپ پوچھیں گے کہ فواد چودھری کیا ہوں گے۔ چودھری سرور وزیراعلی پنجاب ہوں گے وہ آج کل مصلحتاً خاموش ہیں۔ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔