سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس:اداروں اور حکومتوں کے کام جج کرینگے تو پیچھے کیا:جسٹس امیر مسلم
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + سپیشل رپورٹر +نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ میں سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش حملہ پر لئے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وزارت داخلہ نے کمشن کی رپورٹ پر جواب جمع کرادےا اور کمشن کی جانب سے جمع کردہ شواہد عدالت میں پیش کرنے کے لیے نئی درخواست دائر کی۔عدالت نے وزارت داخلہ کی رپورٹ مقدمہ کے دیگر فریقین کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ان سے سفارشات اور جائزہ رپورٹس طلب کرلی، سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کردی ہے جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ جو کام تحقیقاتی ادارے کرتے ہیں وہ کمشن نے کیا،بدقسمتی ہے نہ انویسٹی گیشن افسر کی تربیت ہوتی ہے نہ ہی وہ ایمانداری سے کام کرتے ہیں جانتے ہیں۔ پنجاب میں بھی کچھ کالعدم تنظیمیں موجود ہیں۔ اداروں اور حکومتوں کے کام اگر جج کریں تو پیچھے کیا رہ گیا، ہم کیس کی سماعت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس حوالے سے بھی دیکھنا ہوگا۔ وزارت داخلہ کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کمشنکی رپورٹ کو من و عن قبول کررہے ہیں، مگر کچھ چیزیں حدود سے تجاوز کرتے ہوئے کی گئیں عدالت سے استدعا ہے کہ وہ کمشنکی رپورٹ سے حذف کی جائیں۔ کمشن نے سفارشات مرتب کرتے ہوئے شہادتیں مروجہ طریقے کار کے مطابق نہیں پرکھیں، رپورٹ میں وزیر کی جگہ وزارت کیا جائے، ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی نے کہا کہ وہ کمشنکی رپورٹ پر من عن عمل کررہے ہیں،یہ بلوچستان حکومت کا معاملہ ہے گورنر کے حکم پر سیکٹریز صحت ڈاکٹر عمر بلوچ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ شیخ نواز احمد، رحمت زہری، ڈائریکٹر لسبیلہ ڈویلپمنٹ سہیل مرزا، کومطل کردےا گےا، عمر بلوچ اور شیخ نواز نے معطلی کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی ہیںرحمت اللہ نے پبلک سروس کمشنمیں اپیل دائر کی ہے جبکہ سہیل مرزا کے معطلی کے فیصلہ کو قبول کرلےا ہے۔ عدالت نے چاروں افسروں کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کاحکم جاری کےا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کمشنکی رپورٹ سفارشات کا درجہ رکھتی ہیں عدالتی حکم نہیں،مخدوم علی خان نے کہا کہ ہمیں کمشنکی سفارشات یا اس کے اختیارت پر اعتراض نہیں،اگر سفارشات کو عدالتی حکم کا درجہ مل جائے تو سب کے لئے عمل کرنا لازمی ہو جائے گا،شہادتوں کے حوالے وزارت کا موقف ریکارڈ پر آنا ضروری ہے،جسٹس امیر حانی نے کہا کہ کسی بھی کام کے کرنے سے پہلے اس کے ایس او پیز ہونے چاہیں جبکہ وہ بنائے ہی نہیں گئے،ایک کالعدم تنظیم پر کتنے عرصہ میں پابندی لگائی جاسکتی ہے، مخدوم علی خان نے کہا کہ تقریبا تین ماہ لگ جاتے ہیں انٹیلی جنس کی رپورٹ کے بعد دس دن مزید لگتے ہیں، جسٹس امیر حانی مسلم نے کہا کہ ایک جج نے تفتیشی اداروں کا کام کےا اور کوئٹہ سانحہ پر رپورٹ تےار کرکے دی وگرنہ حکومت سب اچھا کہہ رہی تھی اس پر مگر حکومت کی جانب سے تعریف کے دو لفظ نہیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ ہماری رپورٹ میں لکھا ہے جسٹس حانی نے کہا کہ وہ تین چار لائنیں ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ ہم 200صفحات پر مشتمل قصیدہ بھی لکھنے کو تےار ہیں،عدالت نے وزارت داخلہ کو شہادتوں کے حوالے اپنا موقف تحریری طور پر پیش کرنے کے لئے بارہ دن کی مہلت دے دی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ عوام کے وسیع تر مفاد میں اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ شواہد کو دیکھتے ہوئے فیصلہ دیا تو وہ زیادہ سخت ہوسکتا ہے، ایک شخص کے ذاتی مفاد کو دیکھیں یا قومی مفاد کو، کوئی حکومت نہیں چاہتی کہ ایسے واقعات ہوں، ہم سمجھتے ہیں انسانی غلطی ہوسکتی ہے، ایک شخص تباہی مچاتا ہے اسے پکڑنا آسان کام نہیں۔ دوسری جانب وزارت داخلہ کی رپورٹ پر اعتراضات میں کہا گیا کہ کمشن کی وزیر داخلہ،وزارت داخلہ کے خلاف آبزرویشن غیر ضروری،انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔کمشن کی رپورٹ میں حقائق کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔جواب میں کہا گیا کہ کوئٹہ کمشن رپورٹ میں حقائق کا پتہ چلائے بغیر آبزرویشن دی گئیں۔ دفاع پاکستان کونسل کالعدم تنظیم نہیں ہے، دفاع پاکستان کونسل کے ساتھ مولانا احمد لدھیانوی کی آمد سے وزیر داخلہ بر خبر تھے۔
سپریم کورٹ کوئٹہ دھماکہ