• news

پنجاب اسمبلی: ’’حکومتی ارکان قومی اسمبلی کو کروڑوں کے فنڈز دئیے جا رہے ہیں‘‘ اپوزیشن کا الزام، شدید ہنگامہ

(خصوصی رپورٹر/ خبرنگار/ خصوصی نامہ نگار/ سپیشل رپورٹر/ نیوز رپورٹر/ سپورٹس رپورٹر) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے ترقیاتی فنڈز کے معاملے پر احتجاج کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم کی زیر صدارت گورنر ہائوس میں ہونے والے اجلاس میں حکومتی ارکان قومی اسمبلی کو کروڑوں روپے کے فنڈز دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو پری پول رگنگ ہے ، اجلاس میں نا زیبا الفاظ کی غلط فہمی پر ماحول کشیدہ ہو گیا تاہم سپیکر نے بروقت مداخلت کر کے معاملہ سلجھا لیا ، وزیر قانون نے ہارون آباد میں پیش آنے والے واقعہ کی رپورٹ ایوان میں پیش کر دی۔ صوبائی وزیر ڈاکٹر فرخ جاوید نے نان فارمل ایجوکیشن اور پارلیمانی سیکرٹری اکمل سیف چٹھہ نے محکمہ ماحولیات سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ۔ پارلیمانی سیکرٹری اکمل سیف چٹھہ نے ایوان کو بتایا کہ محکمہ صرف ایک ریگولیٹری اتھارٹی ہے جو ماحولیاتی آلودگی روکنے کیلئے صرف نوٹس جاری کرسکتا ہے یا کسی عمارت ، ادارے کو سربمہر یا اس کا کیس ماحولیاتی ٹربیونل کو ریفر کرسکتا ہے ۔ محکمے کے پاس ایسا کوئی فنڈ نہیں ہوتا کہ وہ خود سے تحفظ ماحولیات کے حوالے سے کوئی منصوبہ شروع کر سکے ۔صوبائی وزیر ڈاکٹر فرخ جاوید نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں نان فارمل ایجوکیشن کے اساتذہ کا معاوضہ کم ہے تاہم حکومت نے اسے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میاں محمود الرشید نے کہا بدھ کو وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں گورنر ہاؤس لاہور میں اجلاس ہوا جس میں وزیراعلیٰ اور وزیر قانون پنجاب بھی موجود تھے۔ حکومتی ارکان قومی اسمبلی کو20،20 کروڑ کے فنڈز جاری کرنے کے لئے ہدایات دی گئی ہیں۔ انتخابات کا وقت قریب ہے یہ فنڈز جاری کرنا ’’پری پول رگنگ‘‘ ہے ۔ہم بھی عوام کے ووٹوں کے ساتھ منتخب ہوکر آئے ہیں ہمیں کیوں فنڈز جاری نہیں کئے گئے۔ ہم پری پول رگنگ اور اپوزیشن ارکان کے ساتھ ناانصافی پر احتجاج کرتے ہیں۔ سپیکر نے کہا وزیر قانون رانا ثنا موجود نہیں وہ آئیں گے اور اس کا جواب دیں گے مجھے اس بارے میں معلوم نہیں ۔تاہم اپوزیشن نے نعرے بازی شروع کردی جس سے ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا رہا۔ اسی دوران اپوزیشن رکن آصف محمود نے کورم کی نشاندہی کردی اور کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس کو15منٹ کے لئے ملتوی کرنا پڑاتاہم40منٹ کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا ۔ صوبائی وزیر بلال یاسین نے خوراک پر عام بحث کے دوران کہا کہ رواں سیزن میں شوگر ملز اب تک94ارب کا گنا خرید چکی ہیں اوراس مد میں82ارب روپے کسانوں کو ادا کئے جاچکے ہیں ۔گزشتہ سیزن میں اب تک صرف20سے21کروڑ روپے ادائیگیاں باقی ہیں۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ دیگر صوبوں سمیت کشمیر گلگت بلتستان اور فاٹا کو بھی گندم فراہم کرتا ہے ۔ صوبے کے بڑے بڑے ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں چھاپے مارے گئے ہیں اور معیار پرکوئی سمجھوتہ کیا گیا اور نہ ہی کریں گے۔ فوڈ اتھارٹی ہر ضلع میں بنائی جائے گی۔ پی ٹی آئی کے عارف عباسی نے کہا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے ذخیرہ کی جانے والی گندم خراب اور ناقص ہے جس پر تو وزیر خوراک بلال یاسین نے نفی کرتے ہوئے کہا ہم صوبہ خیبرپی کے کو بھی یہی گندم فراہم کر رہے ہیں جس پر عارف عباسی نے کہا کہ ہم چیک کرکے لیں گے ، اسی بحث کے دوران یہ غلط فہمی ہو گئی کہ کسی جانب سے نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے ہیںاور ماحول کشیدہ ہو گیا اور بعض ارکان اپنی نشستوں سے اٹھنے لگے تو سپیکر نے مداخلت کرکے معاملہ سلجھا لیا اور اجلاس کے بعد ایک وزیر اور حکومتی و اپوزیشن اراکین نے ملکر غلط فہمی دور کرلی۔ ہارون آباد واقعہ پر وزیرقانون نے وضاحت کی یہ واقعہ سیاسی نہیں ہے بلکہ چائے بنانے والی دو کمپنیوں کی لڑائی کانتیجہ ہے، مقدمہ درج ہوچکا ہے اور دو ملزم بھی گرفتار ہیں جبکہ مقدمے کی تفتیش خالص میرٹ پر کی جارہی ہے تاہم اگر اپوزیشن یہ محسوس کرے کہ تفتیشی عمل میں انصاف کی نفی ہورہی ہے تو حکومت تفتیشی ٹیم میں تبدیلی سمیت ہر قسم کے تعاون کیلئے تیار ہے۔سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا۔

ای پیپر-دی نیشن