• news

دارالعلوم کے باوجود دیوبند کے مسلمانوں میں تعلیم کی کمی‘ شہر ترقی سے محروم

دیوبند (بی بی سی) اترپردیش کے معروف شہر دیوبند شہر اور انتہائی معروف اسلامی ادارے دارالعلوم کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ٹھیک اسی طرح سے جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا علی گڑھ شہر سے ہے یا برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا آکسفورڈ شہر سے لیکن دیوبند شہر اور دارالعلوم ایک دوسرے میں سمٹے رہنے کے باوجود ایک دوسرے مختلف نظر آتے ہیں۔ یہ دو مختلف دنیا ہیں۔ دارالعلوم کی شاندار عمارتوں اور خوبصورت مساجد کا شہر کی گرتی عمارتوں، خستہ حال مساجد اور مدارس کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں۔ دیوبند اور دارالعلوم کا ایک سانس میں نام لیا جاتا ہے۔ یہاں کے ہندو بھی اس مدرسے پر فخر کرتے ہیں۔ دکاندار پروین کمار شرما کہتے ہیں کہ انھیں دارالعلوم کے ’’ورلڈ فیم‘‘ ہونے پر فخر ہے۔ ان کے پڑوسی وکاس گرگ کہتے ہیں دارالعلوم کا نام بھارت اور بیرون ملک میں بھی ہے۔ یہ ہم سب دیوبندیوں کی ادارہ ہے۔ یہاں غیر ملکی بھی پڑھنے آتے ہیں۔ دیوبند مدرسے کا قیام 1866ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے فتاوی اور مذہبی مشوروں کو انڈیا کے زیادہ تر مسلمان مانتے ہیں۔ دارالعلوم ایک طرح سے ’’منی انڈیا‘‘ ہے۔ یہاں پانچ ہزار طلبہ بھارت کے ہر کونے سے آکر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ شہر کا ایک چکر لگانے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اسے ترقی کی سخت ضرورت ہے۔ زیادہ تر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ تنگ گلیاں گندگی سے پر ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں میونسپل کام نہیں کرتی۔ ویسے دیوبند کافی پرانا شہر ہے۔ یہ مغلوں سے بھی پہلے دہلی سلطنت کی سرحدوں کے دائرے میں آتا تھا۔ شہر اب بھی پرانا نظر آتا ہے۔ یہاں پوسٹ آفس ہے۔ ریلوے سٹیشن ہے، بنک اور بازار بھی ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے ترقی سے یہ شہر محروم ہے۔ مقامی رہائشی نسیم احمد نے کہا یہ ایک قصبہ ہے۔ ایک چھوٹے سے شہر کی جتنی ترقی ہونی چاہیے اتنی ہوئی ہے اور میں مطمئن ہوں لیکن شہر کا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہے۔ یہاں کوئی بڑی دکان یا شاپنگ مال نہیں، گندے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں، شہر میں تین سینما ہال ہیں اور یہ تینوں بند پڑے ہیں۔ ڈھابے تو ہیں لیکن کیفے اور ریسٹورنٹ نہیں۔ مظفر نگر سہارنپور ہائی وے پر ایک فلائی اوور بن رہا ہے جس کی وجہ سے سڑک پر ٹریفک جام عام بات ہے۔ آسمان پر مٹی اور دھول کی چادر سی بچھی رہتی ہے۔ دہلی سے 160 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس شہر میں ہندو مسلم الگ الگ حصوں میں آباد ہیں۔ دارالعلوم سے ملحق ایک تنگ آبادی والی مسلم بستی کے رہائشی انیس انصاری کہتے ہیں کہ شہر کی طرف نہ تو حکومت نے کبھی دیکھا ہے اور نہ ہی یہاں سے منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی نے۔ دارالعلوم جیسے بڑے ادارے کے باوجود یہاں کے مقامی مسلم شہریوں میں تعلیم کی کمی ہے۔ شہر میں تقریباً 70 سرکاری اور پرائیویٹ سکول ہیں۔ میونسپلٹی کے سابق چیئرمین حسیب صدیقی دیوبند کے رہائشی ہیں اور انھوں نے دارالعلوم سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کے مطابق شہر میں 70 سے زائد مدرسے ہیں اور 100 سے زائد مساجد۔ دیوبند شہر کی ایک لاکھ 60 ہزار آبادی میں 65 فیصد مسلمان ہیں اور باقی ہندو۔ ہندو اور مسلمانوں کے محلے الگ الگ ضرور ہیں لیکن دونوں مذاہب کے لوگ اتحاد کی باتیں کرتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن