• news
  • image

اب بھارت کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف عزائم پر مزید عالمی دبائو کا سامنا کرنا پڑیگا

ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کثیرالقومی بحری مشقوں کا ’’امن 2017‘‘ کے نام پر آغاز

پاک بحریہ کے زیرانتظام کثیرالقومی مشقوں ’’امن 2017‘‘ کا گزشتہ روز باقاعدہ آغاز ہو گیا‘ ان بحری مشقوں میں پاکستان‘ چین‘ روس‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ ترکی سمیت 37 ممالک کی فورسز اور مبصرین شریک ہیں۔ ان امن مشقوں میں روس پہلی بار شریک ہو رہا ہے۔ یہ مشقیں سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں اور سمندر میں چار روز تک جاری رہیں گی۔ ’’امن2017‘‘ کے نام سے کثیرالقومی مشقوں کے آغاز پر کراچی ڈاکیارڈ پر پرچم کشائی کی تقریب ہوئی جس میں پاک بحریہ کے سربراہ چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل ذکاء اللہ نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ دنیا کے تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں میری ٹائم خطرات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ کھلے سمندر میں موجود خطرات سے کسی ایک ملک کی سرحد کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو خطرہ ہے۔ سمندر میں دہشت گردی‘ قزاقی اور اسلحہ و انسانی سمگلنگ بڑھ رہی ہے‘ ان خطرات سے کوئی ایک ملک نبردآزما نہیں ہو سکتا ۔اس کیلئے تمام ممالک میں تعاون ضروری ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے کثیرالقومی مشقوں کے آغاز کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ امن مشقوں کے ذریعے پاک بحریہ نے سمندری حدود میں ایک پل کا کردار ادا کرتے ہوئے مشرق اور مغرب کی بحری افواج کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبہ کی خاص طور پر سمندری حدود میں اہمیت ہے جبکہ اس سے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت بھی بڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمندری راستوں پر بڑھتے ہوئے انحصار اور معاشی فوائد کی وجہ سے اس بات کی ضرورت ہے کہ سمندر کے اندر محفوظ ماحول کو برقرار رکھا جائے۔ انکے بقول پاکستان بحیرۂ عرب میں سمندری سکیورٹی کا اہم سٹیک ہولڈر ہے اور سمندری سفر کو محفوظ بنانے اور قانونی سمندری نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کیلئے پرعزم ہے۔
پاک بحریہ نے کثیرالقومی بحری مشقوں کا 2007ء میں آغاز کیا تھا‘ ’’امن2017‘‘ کے نام سے گزشتہ روز شروع ہونیوالی پانچویں کثیرالقومی مشقیں اس لئے بھی اہم ہیں کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل سے اس خطہ کے ہی نہیں‘ مغرب اور یورپی ممالک کے ساتھ بھی ہمارے بحری راستے سے رابطے استوار ہو رہے ہیں جبکہ سی پیک کے ذریعہ سمندری راستے سے تجارتی سرگرمیاں بڑھنے کے باعث اقوام عالم کیلئے اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے نئے دروازے کھلیں گے تو اس سے سمندری قزاقوں اور اسلحہ‘ منشیات اور انسانی سمگلنگ میں ملوث جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیاں بھی بڑھیں گی جو سمندری راستے سے منسلک تمام ممالک کی سکیورٹی کیلئے خطرے کا باعث بن سکتی ہیں۔ اسی طرح جو ممالک خطہ میں دوسرے ممالک کی سلامتی کیخلاف جارحانہ عزائم رکھتے ہیں‘ سی پیک کے ذریے بڑھنے والی نقل و حمل سے فائدہ اٹھا کر وہ اسلحہ کی سمگلنگ میں بھی ملوث ہونگے اور سمندری اقتصادی راہداری کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور جنگی جنون بڑھانے کیلئے بھی استعمال کرینگے اس لئے آج سمندری راستے کی سکیورٹی کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر پاکستان کی میزبانی میں ’’امن2017‘‘ کے نام سے شروع ہونیوالی کثیرالقومی مشقوں میں دنیا کے 37 ممالک کی بحری افواج شریک ہیں اور اپنے جدید بحری جنگی جہازوں اور اسلحہ کی نمائش کررہی ہیں تو اس سے ان بحری مشقوں کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ ان مشقوں کے دوران عالمی میری ٹائم کانفرنس کا انعقاد بھی ہونا ہے جس میں بحری راستوں کی سکیورٹی کی اہمیت اجاگر کی جائیگی۔
بلاشبہ سی پیک کی کامیابی کا انحصار بھی سمندری راستوں کے مکمل محفوظ ہونے پر ہی ہے۔ اگر آج سی پیک کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے دنیا کے مختلف ممالک خود کو اسکے ساتھ منسلک کرنے کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں تو وہ تجارتی مقاصد کیلئے سمندری راستے کے مکمل محفوظ ہونے کے بھی متمنی ہونگے۔ اس وقت سی پیک کو سب سے بڑا خطرہ بھارت سے لاحق ہے جو اس منصوبے کی بنیاد پر پاکستان کی ممکنہ ترقی‘ خوشحالی اور استحکام کو برداشت نہیں کر پارہا اور اسے سبوتاژ کرنے کی گھنائونی سازشوں کے جال بن رہا ہے۔ اس کا کثیرالقومی بحری مشقوں میں شریک نہ ہونا بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ وہ پاکستان کے حوالے سے علاقائی اور عالمی امن کی کسی کوشش کو کامیابی سے ہمکنار ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ اس نے اگر پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے پہلے بھی اس پر تین جنگیں مسلط کی ہیں اور اسے سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا ہے تو اب بھی اس سے پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی جبکہ اسکے بڑھتے ہوئے جارحانہ جنگی جنونی عزائم اس امر کی چغلی کھا رہے ہیں کہ وہ باقیماندہ پاکستان کو بھی سقوط ڈھاکہ جیسے کسی سانحہ سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کیلئے ہی اس نے مختلف ممالک کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے مختلف معاہدے کرکے ہر قسم کے جنگی سازو سامان اور گولہ بارود کے ڈھیر لگا رکھے ہیں اور اس جنونیت میں ہی وہ ہر سال اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرتا ہے۔ اب بھی بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں دس فیصد اضافہ کیا ہے حالانکہ اس کا دفاعی بجٹ پہلے بھی ہمارے مجموعی قومی بجٹ سے زیادہ تھا۔ وہ ہماری سلامتی کیخلاف سازشوں کو بروئے کار لانے کیلئے کوئی بھی محاذ خالی نہیں جانے دیتا۔ چنانچہ ہمیں اسکی جانب سے بیک وقت اپنی جغرافیائی زمینی حدود اور اسی طرح فضائی اور بحری حدود پر بھی جارحیت کاخطرہ لاحق ہے۔ بھارت کی موجودہ انتہاء پسند مودی سرکار نے اپنے اقتدار کے آغاز سے ہی کنٹرول لائن پر ہمارے ساتھ بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جبکہ گزشتہ سال کے اختتام پر وہ پاکستان کیخلاف سرجیکل سٹرائیکس کی بڑ بھی مارچکا ہے اور آج بھی بھارتی وزیر دفاع‘ وزیر داخلہ اور آرمی چیف ہمیں سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سال دسمبر میں بھارت نے کراچی کے نواح میں ہماری سمندری حدود میں گھسنے کی کوشش کی جو پاک بحریہ کے مشاق دستے نے ناکام بنائی چنانچہ سی پیک کے ذریعے تجارتی سرگرمیاں شروع ہونے سے بھارت کے ہماری سلامتی کیخلاف جنونی عزائم مزید بڑھ سکتے ہیں اس لئے بین القومی سمندری روابط کو محفوظ بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس تناظر میں آج بحری افواج کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔ اگر ہماری بحریہ دس سال سے کثیرالقومی بحری مشقوں کا اہتمام کررہی ہے جس میں دنیا کی سپرپاورز بھی اپنی بحری افواج اور بحری جنگی جہازوں کے ساتھ شریک ہونا اپنا اعزاز سمجھتی ہیں تو یہ ہماری بحریہ کی مشاقی اور صلاحیتوں کا ہی منہ بولتا ثبوت ہے جبکہ ان مشقوں کے ذریعے بین القومی بحری راستے محفوظ کرنے کی ضرورت کا احساس بڑھتا ہے تو یقنیاً یہ بحری مشقیں خطہ اور اقوام عالم کے ان ممالک کیلئے ٹھوس پیغام ہیں جو بحری راستوں کی سکیورٹی کیلئے خطرات پیدا کررہے ہیں اور ان راستوں کے ذریعے اپنے جنگی جنون کو فروغ دینے کے عزائم رکھتے ہیں۔بلاشبہ ان میں بھارت پیش پیش ہے جو پاکستان اور خطے کے دوسرے چھوٹے ممالک ہی نہیں‘ چین کی سلامتی کیخلاف بھی اپنے جنونی عزائم رکھتا ہے اور آج اسے اقتصادی راہداری میں پاکستان کے ساتھ چین کی شراکت داری ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ اسی پس منظر میں وہ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے جس کا کثیرالقومی بحری مشقوں کے موقع پر یقیناً خطے اور دنیا کے ان تمام ممالک کو بخوبی ادراک ہو جائیگا جو خود کو سی پیک سے منسلک کرکے اپنی اقتصادی ترقی کے خواہش مند ہیں۔ چنانچہ کثیرالقومی بحری مشقیں بھی پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کو عالمی دبائو کے ذریعے راہ راست پر لانے میں معاون بنیں گی۔ سی پیک سے منسلک ہونیوالے ممالک یقیناً اب پاکستان کو ہر حوالے سے ایک مستحکم ملک کے طور پر دیکھنا چاہیں گے کیونکہ مستحکم پاکستان ہی سی پیک کے ذریعے بین المملکتی اقتصادی روابط کے استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے اس لئے بھارت نے اقوام عالم میں خود کو زندہ رکھنا ہے تو اسے کثیرالقومی بحری مشقوں جیسی امن کوششوں کا ساتھ دینا ہوگا اور خطے میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے رجوع کرنا ہوگا بصورت دیگر سی پیک سے منسلک ہونیوالا کوئی ملک پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارت کے جنگی توسیع پسندانہ عزائم کو برداشت نہیں کریگا۔ اس تناظر میں کثیرالقومی بحری مشقیں علاقائی اور عالمی امن کے قیام کی جانب اہم پیش رفت ہیں اور ان مشقوں سے دنیا میں پاکستان کی اہمیت و افادیت مزید اجاگر ہوگئی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن