اتوار ‘ 14 ؍ جمادی الاوّل 1438 ھ ‘12 ؍ فروری 2017ء
مسلم لیگ کا سندھ کارڈ کھیلنے کا فیصلہ‘ ہم خیال جماعتوں سے اتحاد ہو گا۔
دیر آید درست آید۔ مسلم لیگ کو بالآخر سندھ کا خیال آ ہی گیا۔ سندھ بھی مسلم لیگ کی محبت اور توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اب اس روتے بسورتے بچے کو گلے لگانے اور چپ کرانے کی تیاریاں ہوں گی جو عرصہ دراز سے پیپلز پارٹی کے آنگن میں قید ہے۔ تحریک انصاف والے بھی سیڑھی لگا کر دیواروں پر چڑھ کر اس بچے کو اپنی طرف بلا رہے ہیں۔ وزیراعظم کی اجازت سے اگر سندھ میں مسلم لیگ (ن) اپنے ناراض کارکنوں اور اتحادیوں کو راضی کرنے میں کامیاب ہو گئی تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہو گی۔
میثاق جمہوریت اور اصول مفاہمت کے تحت اگر پیپلز پارٹی پنجاب میں جی کھول کر سیاست کر سکتی ہے تو سندھ میں مسلم لیگ (ن) کو کس نے روکا ہے پیشقدمی سے۔ آج بھی وہاں غوث علی شاہ‘ ارباب رحیم‘ ممتاز بھٹو‘ شیرازی اور جتوئی برادران کھلے دل سے مسلم لیگ کا ساتھ دے سکتے ہیں مگر پہلے ان کا اعتماد تو بحال کیا جائے۔ انہیں اختیارات تو دیئے جائیں۔ پھر دیکھیں سندھ میں ایک دم نہ سہی آہستہ آہستہ کیسے دما دم مست قلندر ہوتا ہے… فنکشنل مسلم لیگ والے بھی اس پلڑے میں اپنا وزن ڈال سکتے ہیں۔ ذوالفقار مرزا کو بھی رام کیا جا سکتا ہے۔ تو پھر سندھ اور بازی کو بدلتے دیر نہیں لگے گی…
٭٭٭٭٭٭
اندرون شہر لگائے گئے سکیورٹی کیمرے غائب ہو گئے۔
اب یہ کیمرے کوئی عام کیمرے تو ہیں نہیں کہ چور اُچکے اتار کر لے گئے اور اب اس سے فوٹوگرافی کرینگے۔ یہ خصوصی نگرانی کرنے والے خفیہ کیمرے ہیں جو انتظامیہ نے اندرون شہر حفاظتی انتظامات کے تحت لگائے تھے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ چوروں‘ ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کی نگرانی کے لئے لگائی آنکھیں کوئی چرا کر لے گیا۔ انتظامیہ اور پولیس کو خبر ہی نہیں ہوئی۔ کیا یہ کیمرے آن نہیں تھے۔ کنٹرول روم سے ان کا رابطہ نہیں تھا کہ ان کی آنکھیں بند ہونے کا کسی نے نوٹس تک نہیں لیا ۔اب اندرون شہر کے پولیس افسران کیسی بے نیازی سے کہتے ہیں کہ کیمرے چوری ضرور ہوئے مگر ان کی تعداد زیادہ نہیں۔یعنی کہ سارے شہر کے کیمرے چوری نہیں ہوئے چند علاقوں سے چوری ہوئے۔ اب اسے صرف تسلی کہا جائے یا کچھ اور۔ چوری کی واردات پر افسوس نہیں تعداد اور مقدار کی کمی کا مژدہ سنایا جا رہا ہے۔ گویا خطرہ تب تھا جب سارے شہر سے یہ خفیہ آنکھیں چوری ہو جاتیں۔ شاید انتظامیہ بھی اس وقت ہی ہوش میں آتی۔ ابھی تک ’’مژگان تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا‘‘ والی نوبت نہیں آئی اسلئے عوام کو بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسی چھوٹی موٹی چوریاں ہمارے کلچر میں رچ بس چکی۔
٭٭٭٭٭٭
خوراک کی کمی کے باعث مزید 5 لاکھ بچے کمزور اور لاغر ہو سکتے ہیں۔ یونیسیف
یہ اس عالمی ادارے نے بھی دہشت گردوں کی طرح چن کر پاکستان کو ہدف بنایا ہوا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ کئی عالمی ادارے سچی یا جھوٹی یہ تو اوپر والا ہی بہتر جانتا ہے‘ رپورٹیں شائع کر کے کبھی ہمیں خوش کرتے ہیں‘ ہماری ترقی اور خوشحالی کی کہانی سناتے ہیں۔ اس پر کوئی اور شادیانے بجائے یا نہ بجائے مگر حکمران ضرور نعرہ ہائے تحسین بلند کرتے ہیں اور ہفتوں ان فتوحات اور خوشحالی و ترقی کے قصے مزے لے لے کر وزرا سناتے ہیں اور کبھی یہ ادارے ہماری معیشت و ترقی کے سفر کی بھیانک منظرکشی کر کے ہمیں خوفزدہ کر دیتے ہیں۔ اب یونیسیف کو ہی دیکھ لیں پوری قوم کو ڈرا رہا ہے کہ خوراک کی کمی کے باعث مزید 5 لاکھ پاکستانی بچے کمزور لاغر ہو سکتے ہیں۔ اب یہ لفظ لاغر کا مطلب ہم سے زیادہ کون بہتر سمجھ سکتا ہے کہ پسماندہ علاقوں میں جابجا اپنی عمر سے زیادہ اور کمزور و بیمار نظر آنے والے بچوں کی قطاریں شمار نہیں ہوتیں۔ شہری غریب علاقوں میں بھی مدقوق بچے کثرت سے نظر آتے ہیں۔ صرف یہی نہیں متوسط گھرانوں میں بھی اب خوراک کی کمی کا شکار بچوں کی لائنیں نظر آتی ہیں۔
حیرت اس بات پر ہے کہ جو ملک اناج کا گھر ہے۔ جہاں ہر قسم کا غلہ وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے وہاں ہی خوراک کی قلت قوم کو نگل رہی ہے۔ اس میں سراسر قصور اس نظام کا ہے جو اناج کو بھوکوں تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ ہمارے گودام گندم‘ چاول‘ چینی اور دالوں سے بھرے ہیں نئی فصلیں بھی شاندار ہوتی ہیں مگر پھر بھی ہمارے آنگن میں بھوک ناچ رہی ہے۔ کیا اس کا کوئی حل ہے کسی کے پاس…
٭٭٭٭٭٭
امریکی اپیلٹ کورٹ نے سات مسلم ملکوں پر ویزے کی پابندی کے لئے ٹرمپ کی اپیل مسترد کر دی۔
امریکی صدر ویسے ہونا تو ایسا ہی چاہئے دبنگ قسم کا جیسے ٹرمپ ہیں۔ ورنہ اوبامہ جیسا مسکین نظر آنے والا صدر تو ذرا بھی نظروں میں نہیں جچتا۔ وہ جبوتی مصر یا مالدیپ کے صدر ہوتے تو برے نہ لگتے۔ اب موجودہ امریکی صدر جس طرح آتے ہی چھا گئے ہیں اس سے تو ان لوگوں کو بھی پتہ چل گیا ہو گا کہ امریکہ میں نیا صدر آیا ہے جو شاید عرصہ سے خبروں کی دنیا سے دور اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ اب نئے صدر کی طرف سے سات مسلمان ممالک پر ویزے کی پابندی کی اپیل بھی امریکی عدالت نے مسترد کر دی ہے تو ٹرمپ صاحب نے اس پر اپنے اسی والہانہ جابرانہ انداز میں ’’دیکھ لوں گا‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اس پر امریکی ووٹر تو جھوم اٹھے ہوں گے جن کی اکثریت نے انہیں ووٹ دے کر کامیاب کرایا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہی انداز امریکیوں کو بھایا ہے کہ وہ بنا لگی لپٹی وہ کچھ کہہ دیتے ہیں جوانکے دل میں ہے اور دوسروں کو ہضم نہیں ہوتا۔ اب اسے کوئی ظالمانہ انداز کہے یا غاصبانہ‘ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ اور کچھ نہیں بس اگر ہمارے حکمران بھی نئے امریکی صدر کی طرح اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے کے لئے یہی ظالمانہ انداز اپنائیں تو مزہ آ جائے۔ تمام مسائل دیکھتے ہی دیکھتے حل ہو سکتے ہیں۔ اسلئے پاکستانی قوم کو دعا کرنی چاہئے کہ کوئی ٹرمپ جیسا حکمران یہاں بھی آئے۔ جو اور کچھ نہیں توکم از کم اپنے انتخابی وعدے ہی پورے کردے…