رضا ربانی کی کہانیاں۔۔۔
شکر ہے کہ صدر مملکت وطن عزیز میں ہیں ورنہ میرے قریبی دوست قائم مقام صدر کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوتے تو ہزایکسیلنسی۔۔ محترم و مکرم کے القاب کو ملحوظ رکھنا پڑتا اب بھی بہ لحاظِ عہدہ ریاستی اداروں کے صفِ اولاں میں ہیں مگر یقیناً وہ یہ پسند کرینگے کہ میں اُنہیں رضا کے بے تکلفانہ نام ہی سے مخاطب ہوں۔ مجھے سینیٹر وفاقی وزیر اور پھر چیئرمین سینیٹ کے اعلیٰ ترین رتبے پر پہنچنے والے رضا ربانی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ذرا مشکل ہو رہی ہے کہ جنہوں نے گذشتہ چند برسوں میں چیختی چلاّتی hostile اپوزیشن اور پھر اپنی پارٹی کے اندربڑی محنت، ذہانت اور دیانت سے آئین پاکستان میں ایسی ترامیم کو متفقہ طور پر منظور کرا لیا کہ جس کے سبب گذشتہ پانچ دہائی سے صوبوں بلکہ صوبوں کے درمیان قومیتوں کے درمیان نہ صرف تیغیں اپنے اپنے لہو میں نیام میں ہو رہی تھیں بلکہ 70کی دہائی میں تو لہو کا ایک دریا آدھا پاکستان ہی ہم سے لے گیا۔ شاعر عوام حبیب جالب نے کس دردمندی سے چند مصرعوں میں اس سارے ’سانحہ‘ اور اس کے بعد آنے والے طوفان کو سمیٹا تھا۔
سندھ، بلوچستان تو کب سے روتے ہیں
اور اہلِ پنجاب ابھی تک سوتے ہیں
انکھیں ہیں پُر آب کہ پاکستان چلا
اپنے چلن سے ہم سے جدا بنگال ہوا
پوچھ نہ اس دکھ سے جو دل کا حال ہوا
روکو یہ سیلاب کہ پاکستان چلا
جاگ میرے پنجاب
مجھے نہیں معلوم کہ رضا ربانی کے ذہن میں اس سارے دور میں جب وہ سترہویں، اٹھارہویں اور پھر انیسویں ترمیم پر consensus حاصل کرنے کیلئے خون پسینہ ایک کئے ہوئے تھے، جالب صاحب کی یہ مشہورِ زمانہ نظم تھی یا نہیں تاہم میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میں نے اور رضا نے جالب صاحب سے ’دستور‘ سمیت یہ نظم بارہا شام کی محفلوں میں جب بھی سنی تو اس وقت یہ ضرور خیال آتا تھا کہ آخر ہمارے حکمراں طبقے آنے والے ممکنہ طوفان کو روکنے کیلئے اس طرح کیوں نہیں سوچتے۔ اب جب جالب صاحب کا ذکر آہی گیا ہے تو میں اس دور سے اتنی آسانی سے نکل نہیں پارہا کہ 70اور پھر 80کی دہائی کا یہ بڑا ولولہ انگیز دور تھا۔ کراچی یونیورسٹی میں الیکشن کے دوران سرخ اور سبز نعروں کی دھمک میں ایک دن ایک سینئر کامریڈ نے کہا۔ ’’یار یہ جو صبح ہی صبح ایک اسمارٹ انگلش میڈیم سا اپنی گاڑی سے سیدھا کلاس میں چلا جاتا ہے اسے گھیر کر پروگریسو فرنٹ میں لانا ہے یہ جو ڈیفنس اور کلفٹن والیاں ہمیں ووٹ نہیں دے رہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی دیہاتی زبان اردو میں ووٹ مانگتے ہیں اور وہ بھی بھائیوں والی۔ آرٹس لابی میں ایک صبح کافی پلاتے ہوئے ہم نے رضا کو گھیر لیا بلکہ اس پر بھی آمادہ کرلیا کہ اگلے دن یہ انگلش اور انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ میں campaign کیلئے جائینگے بلکہ انگریزی میں تقریر کر کے ہمارے امیدواروں کو introduce بھی کرائیں گے۔ رضا کی چند دن کی تقریروں کا یہ اثر ہوا کہ انگلش میڈیم لڑکیوں کے غول کے غول سرخ جھنڈے اُٹھائے ہماری کارنر میٹنگوں میں آنے لگیں۔ ان انگلش بولتی سرخ جھنڈے اُٹھائے بیل باٹمز والیوں کے سبب مضافاتی بستیوں والے کامریڈ مزید ایکٹیو ہو گئے۔ بلوچ اور پختون اسٹوڈنٹس پہلے ہی پروگریسیو فرنٹ میں شامل تھے۔ مگر ان کا جوش و خروش بھی دن دوگنا رات چوگنا ہوگیا۔ یوں کراچی یونیورسٹی میں پہلی بار ہم نے اسلامی جمعیت طلبہ کو شکست دی۔ کراچی یونیورسٹی میں جمعیت کی شکست ایسی تھی جیسے ’’اچھرا میں جماعت اسلامی ہار جائے‘‘۔ اب میں ان شاموں کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ جو مہینوں نہیں بلکہ برسوں پر محیط ہیں۔ ایک عجیب سرمستی وسر شاری تھی۔ اپنی جیب خالی ہوتی مگر رضا کی جیب سے بٹوا اس طرح نکالتے جیسے یہ غلطی سے انکی جیب میں چلا گیا ہو اور پھر یہی وہ وقت تھا کہ جب ہم اپنی اپنی بغلوں میں ڈگریاں دبائے نوکریوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ رضا اپنے سیاسی اور خاندانی پس منظر کے سبب جلد ہی یا تو لندن، واشنگٹن میں ہونگے یا پھر کسی ملٹی نیشنل کے چیف ایگزیکٹیو مگر جلد ہی انکے بارے میں خبریں آنے لگیں کہ نہ صرف پیپلز پارٹی میں سرگرم ہوگئے ہیں بلکہ مارچ 77کے انتخابات میں الیکشن بھی لڑرہے ہیں۔
مارچ 77کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی پر ابتلاء کا دور آنا شروع ہوگیا تھاکہ کراچی ابتداء ہی سے پی پی مخالف شہر رہا ہے پہلے جماعت اسلامی کا گڑھ اور پھر ایم کیو ایم کا کسی شہری پس منظر رکھنے والے کا اور وہ بھی پیپلز پارٹی میں رہ کر ڈٹ کر کمٹمنٹ کے ساتھ کھڑے ہونا اُس وقت اک ’’آگ کے دریا‘‘ سے گزرنے کے مترادف تھا۔ بھٹو حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی جو جیالوں کی گرفتاریوں کا بڑے پیمانے پر سلسلہ شروع ہوا تو کراچی سے رضا گرفتار ہونیوالوں کی پہلی کھیپ میں تھے۔ شام کو جب میں نیو ٹاؤن تھانے میں خبر لینے گیا تو وہ سفید شلوار کرتے میں بیٹھے جیالوں کیساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ یہاں چلتے چلتے وضاحت کرتا چلوں کہ ہم پیپلز پارٹی میں نہیں اسکی کٹّر مخالف افراسیاب خٹک کی نیشنل عوامی پارٹی کے حامی ہوتے تھے اور ہمارا خیال تھا کہ یہ جیالے اور وہ بھی رضاربانی کی کلاس والے، ہفتہ دس دن بعد معافی مانگ کر یا تو ضیاء سے جا ملیں گے یا لندن بھاگ جائینگے P.N.Aمیں شامل جماعتوں نے پی پی پی پر مار پڑنے پر جو مجرمانہ خاموشی اختیار کی اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا مگر مجھے یاد ہے کہ رضا نے حوالات کی سلاخوں سے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بغیر کچھ کہے ایک لمبی، ’ہوؤں‘ کیساتھ سانس لی تو میری آنکھیں جھک گئیں ہمیشہ چلتی ہوئی تیز طرّار اردو زبان کو چپ لگ گئی۔ رضا نے اپنی کلاس سے بغاوت کر کے وہ راستہ اختیار کیا کہ جس میں اگلے دس پندرہ سال رضا کو اپنی جواں بھری امنگوں کو قربان کر کے کال کوٹھریوں میں اپنے شاندار کیرئیر کو داؤ پر لگا کر سختیوں میں گذارنے تھے!
یہ ہم ہی تھے جن کے لباس پہ سرِرُو سیاسی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِبزمِ یار چلے گئے
یہ لیجئے عمر کے اس پہر میں یہ ہی ہوتا ہے۔ رضا کے ساتھ گزرے دہائیوں کے دیرینہ تعلقات کو یاد کرتے ہوئے اُنکی کہانیوں کی کتاب کہیں دور نکل گئی جسے گزشتہ ہفتے میں نے ایک نشست میں ختم کیا۔ کہانیوں اور افسانوں پر لکھنا نقادانِ ادب کا کام ہوتا ہے یہ کام بڑی خوبصورتی سے میرے دوست عہد حاضر کے ممتاز افسانہ نگار مظہر اسلام نے کر بھی دیا ہے۔ معاملہ کہانیوں کا ہے آئینی، سیاسی مو شگافیوں کا نہیں ورنہ کب کا تین چار صفحے کا کالم کھینچ چکا ہوتا مگر پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کہانیاں نہیں بلکہ ہمارے ارد گرد پھیلے وہ کردار ہیں جنہیں رضا نے اپنی کہانیوں کا محور و مرکز بنایا ہے۔ پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے کرداروں کی یہ وہ کہانیاں ہیں جنہیں ہمارے ریاستی اداروں سے انصاف نہیں ملتا یقیناً یہ سوال بھی تو اُٹھایا جا سکتا ہے کہ کتاب کے مصنف خود بھی تو ان ریاستی اداروں کے برسہا برس سے اسیر ہیں مگر اس سوال کا جواب خود رضا کی تین دہائی سے اوپر کی سیاسی زندگی نے دے دیا ہے کہ حاسدانِ جماعت ہوں کہ صفِ دشمناں۔ ایک بات پر سب ہی متفق ہیں کہ میرے عزیز دوست رضا ربانی فیض کے اس شعر کی مجسم تصویر ہیں کہ !
اس عشق نہ اُس عشق پر لازم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
عزیز از جاں دوست رضا ربانی سے معذرت کہ اُن کی ساری کہانیاں تو کہانیوں کی طرح پڑھ لیں مگر آخری کہانی When A Part Of You Dies کا ایک صفحہ پڑھنے کے بعد پھر سے ورق اُلٹ کر پڑھنا شروع کر دیتا۔ یوں بھی یہ کہانی نہیں ہے رضا کی اپنے والد سے محبت و عقیدت اور لگائو کے وہ پھول ہیں جو وہ اپنے والد کی قبر پر برسوں پہلے چڑھا تو آئے مگر جنہیں اپنی نم زدہ آنکھوں میں اپنی ہنگامہ خیز سیاسی زندگی کے باوجود ہمیشہ محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ کسی خوبصورت پینٹنگ۔۔ کسی لُبھا دینے والی موسیقی کی داد دینے کے لئے الفاظ غریب ہوجاتے ہیں ! When A Part Of You Dies ختم ہوئی تو میری آنکھوں سے ٹپکتے آنسو اُن صفحات کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے تھے۔ رضا نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے محبوب عوامی شاعر جالب صاحب کا ایک مصرعہ لکھا ہے ۔
اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا!
رضا اجازت دیں تو اس غزل کے دو تین شعر پڑھ کر اجازت لوں کہ۔۔
اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا!
رہ گیاکام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
جی ہاں! رضا نے بولتے ہوئے اور لکھتے ہوئے کبھی کسی سے اجازت نہیں لی۔
(اسلام آباد میں چیئرمین سینیٹ کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر پڑھا گیا)