دہشتگردی ۔۔۔ظلم اور انصاف
قیامت کی گھڑی ہے‘ یہ محشر کا سماں ہے‘ لاہور کو ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا‘ پنجاب کا دل لہو لہو ہے‘ کار پر دازان حکومت کہتے ہیں پہلے روزانہ دھماکے ہوتے تھے‘ اب کبھی کبھی ہوتے ہیں۔ لگتا ہے گردش ایام وہ زمانہ پھر سامنے لے آئی ہے جن کو بدترین قرار دے کر حکمران بہترین مستقبل کی نوید سنا رہے تھے۔ لاہور میں جس روز دھماکہ ہوا اسی روز کوئٹہ اور جنوبی وزیرستان میں بھی دھماکے ہوئے۔ کراچی میں ایک روز قبل پولیس اور سما ٹی وی کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس والے تو محفوظ رہے سما کا کیمرہ مین تیمور خاں جاں بحق ہو گیا۔
ان واقعات سے لگتا ہے‘ دہشتگرد پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ وزیرستان شدت پسندوں کا گڑھ رہا ہے‘ ان کی باقیات اب بھی ان علاقوں میں کہیں نہ کہیں بکھری ہوئی ہوں گی یہ زخم خوردہ ہیں‘ موقع ملنے پر وارکرنے سے گریز نہیں کرتے۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد یہ ملک سے فرار ہوئے‘ کچھ ملک میں جہاں سینگ سمایا دُبک گئے۔ یہ سہولت کاروں کے بغیرکارروائی نہیں کر سکتے۔ حکومت اور فوج جو بھی دعوے کرے‘ سہولت کاروں پر بلا امتیاز ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ جس بمبار نے لاہور میں قیامت ڈھائی اسے اس بہیمانہ اقدام پر کسی نے تو قائل اور مائل کیا۔ یہ زمین سے اگا‘ نہ آسمان سے ٹپکا‘ اس کے بھی رشتے ہیں‘ ماں ہو گی، باپ ہو گا‘ بہن بھائی ہونگے۔ ان کو پتہ ہوتا کہ وہ انسانیت کا قتل کرنے جا رہا ہے تو رشتے اس کے پاؤں کی زنجیر بن جاتے۔ خود کش بمباروں کو رحمن سے قربت کا جھانسہ دے کر شیطان اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کا حل تو شیطانوں کی باطل تعلیمات اور ترغیبات کو دلیل اور موٹیویشن سے رد کرنا ہے مگر جب صبر کی اخیر ہوئی تو جبر کا فیصلہ کرنا پڑا‘ اس کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
جنرل راحیل شریف نے بڑا فیصلہ کیا‘ بہت بڑا فیصلہ۔۔۔ اور پھر اس پر عمل کے لئے ممکنہ حد تک توانائیاں صرف کر دیں۔ وزیرستان سے دہشتگرد بھاگے‘ کراچی سے جرائم پیشہ گروہوں نے راہ فرار اختیار کی۔ پنجاب میں چھوٹو گینگ حکومت پر بھاری پڑا تو جنرل راحیل کو پکارا گیا۔ آج ملک پھر بدترین دہشتگردی کی لپیٹ میںآیانظرآتا ہے۔ ایسے موقع پر جنرل راحیل بہت یاد آئے۔ قوم کو یاد ہے ایک سپاہی کی شہادت کا بدلہ جنرل راحیل دس کو ٹھکانے لگا کر لیا کرتے تھے۔ آج کی سیاسی اور عسکری ایلیٹ نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کو جنرل راحیل کی جنگ سمجھ لیا جو شاید انہیں نقش کہ نظر آتی ہے۔ جنرل راحیل اپنے جاں نشین کو صحیح معنوں میں لیگیسی ٹرانسفر نہیں کر سکے یا پھر ان کی سوچ کا کانٹا بدل گیا ہے۔ جنرل راحیل شریف بھی بعض معاملات میں مجبور محض نظر آتے تھے۔ ان کے ایما پر حکومت نے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا مگر اس پر جزوی عمل ہوا۔ اس کا اعتراف متعدد بار وزیراعظم نواز شریف نے کیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی رپورٹ میں ایکشن پلان پر عمل کے حوالے سے کوتاہیوں کی نشاندہی کی تو وزراء برہم ہوگئے۔
لاہور پنجاب کا دل تو ملک کا قریہ قریہ پاکستان کی جان ہے۔ جہاں کہیں بھی کانٹا چبھے درد پورے بدن میں محسوس ہوتی ہے۔ ایل او سی پر شہید ہونیوالے سپاہی وزیرستان، کوئٹہ، چمن اور کراچی میں دہشتگردوں کا نشانہ بننے والے ایف سی، پولیس اور رینجر اہلکاروں کا دکھ بھی ڈی آئی جی، کیپٹن مبین اور ایس ایس پی زاہد گوندل سے کم نہیں۔ لاہور دھماکے میں فرائض پر جان نچھاور کرنے والوں میں وارڈن اور پولیس اہلکاروں کی عظمت کو سلام،یہ ہمارے ہیرو ہیں،کیپٹن مبیں اور ایس ایس پی زاہد نے جاں دے کر پولیس کااعتبار بحال اور وقاربلند کیا ہے۔ اس سانحۂ جانکاہ کے بعد حکمرانوں کی طرف سے تجدید عہداور دہشتگردوں کیخلاف بے لاگ کارروائی کے عزم کی ضرورت مگر امید عبث ہے۔ قیامت کی گھڑی اور محشر کا سماں دہائیوں پر محیط ہو چکا ہے اورمزید بیسیوں سال پر پھیلا نظر آتا ہے۔ غارتگر اس سانحہ کو بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور شاہ کی وفاداری کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ایک وزیر کہتے ہیں 90 شاہراہ قائداعظم دہشتگردوں کا ٹارگٹ تھا۔ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ انہوں نے وزیراعلیٰ کو تاخیر سے آفس جانے کو کہا تھا۔ یہ’’ وزیر قانون اعلیٰ‘‘ کا وجدان تھا یا انٹیلی جنس تھی؟
وزیراعظم کو واقعہ پر شدید صدمہ ہوا مگر جنازے میں شرکت کی فرصت نہ ملی۔ سہولت کاروں کے بغیر ایسی کارروائی ممکن نہیں مگر سہولت کاروں کے خاتمے کے عزم کا فقدان ہے۔ جنرل ناصر جنجوعہ آج نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل کے دو سال بعد اس پر عمل کے لئے روڈ میپ کی بات کر رہے ہیں۔ وزرا مشیروں اور پارلیمانی کمیٹیوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن پر سہولت کاری کا الزام ہے۔ ایسے میں جنرل جنجوعہ کی پلاننگ اور ان کا روڈ میپ بیکار ہے۔ امریکہ میں سفیر تصدق حسین جیلانی ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے آنکھیں دکھانے پر بے سدھ ہوگئے۔ حکومت کو ایسا پیغام دیا کہ حافظ محمد سعید، ساتھیوں اور ان کی تنظیموں پر کڑے پہرے لگا دئیے گئے۔ بھارت اپنی حکمت عملی میں کامیاب، ہمارے امریکہ میں سفیر اور سفارتکار مات کھا گئے۔
دہشتگردی اور دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے جہاں حکومتی سطح پر کمٹمنٹ اور ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے وہیں عدل کی کارفرمائی بھی ناگزیر ہے۔ دہشتگردی ایک ظلم ہے، ظلم اور انصاف میں توازن کیلئے ظلم کا خاتمہ ضروری ہے۔ ظلم رہے اور امن بھی ہو فلمی باتیں ہیں۔ معاشرے میں انصاف کی اس کی روح کے مطابق کارفرمائی نہیں ہے جس کے شواہد عیاں ہیں۔ ایکشن پلان ایک طرف رکھ دیں۔ عدل قائم کردیں تو دہشتگردی کے ساتھ ساتھ کرپشن، لوٹ مار، قتل و غارت اور ریپ جیسے گھنائونے جرائم اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ سانحہ ماڈل ٹائون میں انصاف کیا ہوا؟ پانامہ کیس کیوں لٹک رہا ہے۔ نوے کے اصغر خان کیس کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایاگیا ۔ خواجہ سعد رفیق جو ری الیکشن پر تیار تھے وہ سٹے پر وزیر ہیں۔ عدلیہ فعال ہو ادھر کیس آئے ادھر فیصلہ ہوجائے۔عدلیہ میں ججوں کی کمی ہو نہ وہ دبائو کا شکار ہوں تو دہشتگرد ان کے سپورٹر اور سہولت کار تختۂ دار پر نظر آئیں تو دہشتگردی کے خاتمے میں کسی پلان اور ایکشن پلان کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
لاہور میں پولیس افسر اہلکار اور دیگر 100 سے زیادہ افراد خون میں نہا گئے کچھ ابدی نیند سو گئے، کچھ زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ پولیس افسر ہڑتال کرنیوالوں ڈرگ اینڈ کیمسٹ سے مذاکرات کر رہے تھے۔ ڈرگ کیمسٹ ایماندار بھی ہونگے جن کی تعداد قلیل ہے ،اکثر انسانوں اور انسانیت کے دشمن ہیں جعلی ادویات کی پوری قیمت وصول کر کے موت اور بیماری بانٹتے ہیں۔ لاہور کے واحد اور بڑے سرکاری امراض دل کے ہسپتال میں جعلی ادویات سے دو سو افراد جاں بحق ہوگئے ۔ کراچی کی ادویات ساز کمپنی اس میں ملوث تھی۔ اس کے شاطر مالکان نے پاکستانی لیبارٹریز سے مرضی کی رپورٹ بنوالی لندن کی رپورٹوں نے بھانڈا پھوڑ دیا مگر یہ کمپنی اور اس کے مالکان محفوظ ہیں وہ بھی ہڑتال میں شامل ہونگے۔ ایسے لوگ اور کمپنیاں اگر موت بانٹ رہی ہیں توان کو کون سیدھا کرسکتاہے؟ وہی ادارہ جس کا چیف عتیقہ اوڈو کے پرس سے ’’مشروب‘‘ برآمد ہونے کا نوٹس لیتا ہے،اس ادارے کا ہیڈ موت بانٹنے والوں سے نمٹے کا عہد کرلے تو ملک سے دنوں میں سفاک دہشتگردوں اور انسانیت کے دشمنوں کا خاتمہ ہوسکتاہے۔