صحافت ناگزیر کیوں؟
کسی بھی معاشرے میں صحافی کا کردار اہم تو ہے ہی، باکردار بھی ہونا چاہیے۔ کیا ہمارے صحافی یہ ’’کردار‘‘ بحسن و خوبی ادا کر رہے ہیں؟ آج ہم نے اس موضوع کا انتخاب کیا ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ صحافت میں ایک صحافی پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اُس کا اہم اور نمایاں پہلو کیا ہے؟ ’’صحافت‘‘ ایسا ’’پیشہ‘‘ ہے جس کی افادیت اور اہمیت کو پوری دنیا جانتی ہے اور اسے تسلیم بھی کیا گیا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے بعد الیکٹرانک میڈیا کے آ جانے سے اس پروفیشن کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ یہ بھی تسلیم شدہ امر ہے کہ صحافت کو دنیا بھر میں امورِ ریاست کا اہم ستون مانا گیا ہے۔
پاکستان میں صحافت آج کس نہج اور ڈگر پر ہے، اس پر اکثر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ بحث مباحثوں کا بھی آغاز ہوتا ہے۔ کالم اور مضامین بھی لکھے جاتے ہیں۔ خود اس پیشے سے وابستہ لوگ اس موضوع پر بہت ہی کُھل کر اظہار خیال بھی کرتے ہیں اور سب ہی کی متفقہ رائے یہ ہوتی ہے کہ صحافت کو معاشرے میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے اور یہ کہ غیر ذمہ داری سے پرہیز ہی اس کی پہچان ہونی چاہیے تاکہ اس کے قد کاٹھ میں مزید اضافہ ہو سکے۔20سال پہلے کی صحافت کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اس سے وابستہ لوگ کتنی مشکلات میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دیتے تھے۔ نہ اُن کی پاس گاڑی ہوتی تھی اور نہ موٹر سائیکل۔ ظاہری زندگی بھی سخت کٹھن اور مشکل کا شکار رہتی تھی۔ کئی معروف صحافی سائیکل پر اپنے اخبار کے دفتر آتے تھے۔ کرایوں کے گھر تھے اور ان صحافیوں کے بچے بھی عام نارمل سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ تاہم اُن کی خبر اتنی تصدیق شدہ ہوتی تھی کہ کسی بھی سطح یا فورم پر اُس کی صداقت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اخبار اگرچہ گنتی کے ہی تھے لیکن اُن کی بڑی افادیت تھی۔ لاہور جیسے شہر سے صرف چار نیشنل اخبار شائع ہوتے تھے۔ جن میں تین اردو اور ایک انگریزی کا اخبار تھا۔ الیکٹرانک میڈیا میں صرف پی ٹی وی تھا۔ جس کی خبریں حکومتی پالیسی کے قریب ہوتی تھیں۔ اس لیے عوام میں پی ٹی وی کی خبروں کو ئی خاصل اہمیت حاصل نہیں تھی۔
مجھے یاد پڑتا ہے ایک اردو اخبار کے سنگل کالمی کارٹون کے نیچے درج کیپشن پر بھی اسی روز ایکشن ہو جایا کرتا تھا۔ نہ صرف مقامی انتظامیہ بلکہ حکومت تک حرکت میں آ جاتی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے ایک اخبار کے بچوں کے ایڈیشن میں غلام محی الدین نذر نے ایک ایسے محنت کش بچے کی داستان شائع کی جو پڑھنے کا شوق رکھتا تھا، چونکہ والدین بے حد غریب تھے اس لیے اپنی پڑھائی کا خرچ اخبار بیچ کر پورا کرتا تھا۔ اُس وقت ضیاء الحق کی حکومت تھی انہوں نے اسلام آباد میں یہ ایڈیشن پڑھا تو گورنر پنجاب کے ذریعے کمشنر لاہور کو حکم دیا کہ وہ دو دن بعد لاہور آ رہے ہیں اُن کی آمد کے موقع پر اس محنت کش طالب علم سے اُن کی ملاقات کا بندوبست کیا جائے۔ ضیاء الحق لاہور آئے تو اس بچے سے بھی ملاقات کی۔ مالی امداد کے علاوہ بچے کی تعلیم کا سارا خرچہ بھی حکومت پاکستان کی طرف سے اٹھایا اور ایسا سب کچھ ایک ایڈیشن کی اچھی رپورٹ سے ممکن ہوا۔اس سے اندازہ کریں کہ ماضی میں چھپنے والی خبروں، رپورٹوں اور فیچرز کو کیا اہمیت حاصل تھی۔ اس کی اس قدر اہمیت تھی کہ سربراہ مملکت بھی خود اس کا نوٹس لیتے تھے۔ کسی میں بھی غیر تصدیق شدہ یا غلط خبر چھپنے کی ہمت تک نہیں تھی۔ مگر اب صحافت کا حال وہ نہیں ہے۔ اس وقت جو لوگ اس سے وابستہ ہیں وہ اگرچہ بہت ہی پڑھے لکھے ہیں اور اُن کے پاس مقامی یونیورسٹیز سے ایم اے جرنلزم کی ڈگریاں بھی ہیں لیکن پریکٹیکل تجربہ اور بنیادی تربیت نہ ہونے کے باعث اُن کی صحافتی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ صحافت میں مقابلے کی دوڑ نے بھی تمام تر صحافتی اسلوب اور آداب کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ اب جو بھی خبر مل جائے چاہے ذرائع اس کی تصدیق نہ کر رہے ہوں ، بغیر سوچے سمجھے اُس خبر کو ریلیز کر دیا جاتا ہے۔ قطعی یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس غیر تصدیق شدہ خبر کے ریلیز ہونے سے کتنے لوگ رسوائیو ں کی دلدل میں گر سکتے ہیں۔
اگرچہ صحافت اب بہت آگے نکل گئی ہے۔ بہت تیزی میں ہے۔ لیکن اُسے اتنا بھی تیز نہیں ہونا چاہیے کہ سب ’’آداب‘‘ ہی بھلا دے۔ صحافت اور صحافی کو معاشرے میں بہت اہم مقام حاصل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ’’مقام‘‘ کی پاسداری کی جائے۔ اس کے تقدس کو برقرار اور بحال رکھنا مکمل طور صحافیوں اور تمام قلمکاروں کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سینئر جرنلسٹوں کی سرکردگی میں ایسی تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے جہاں صحافت میں داخل ہونے والے نئے لوگوں کی ذہنی اور قلمی تربیت کی جا سکے۔ ایسی ورکشاپس کے انعقاد سے صحافت جیسے اہم ریاستی ستون کو نئی سمت اور راہ دی جا سکتی ہے۔ صحافت میں ہونے والی مثبت کاوشوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ تو ہم اپنے معاشرے کے ہر شعبے میں نمایاں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اور ایک بہتر معاشرے کے استحکام کے لئے ایسا کرنا اب بہت ناگزیر ہے۔