• news
  • image

پاکستان اور فوج

یہ بات پہلے دن سے طے کر لی گئی تھی کہ جمہوریت والا پارلیمانی نظام کے تحت اس ملک میں طرز حکومت ہو گا، لیکن دس گیارہ سال کی سیاسی قلابازیوں نے سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا نہ آئین ملا اور نہ کوئی لیڈر۔ نوزائیدہ ملک شروع سے ہی بے برکتی کا شکار ہو گیا اور اس کے بعد اداروں کی لڑائی کا ناختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہوا جس کی بازگشت آج بھی اقتدار کے ایوانوں میں ہروقت سنائی دیتی ہے۔ فوج کی سیاست میں دخل اندازی یا امور حکومت میں مداخلت کرنا صحیح کون غلط کون یہ بحت ہر اگلی سے لیکر ہر نجی محفل اور سپریم کورٹ سے لیکر قومی اسمبلی اور جی ایچ کیو تک جاتی ہے۔ اس بات پر عوام بھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ مارشل لاء میں ویسے تو معیشت بھی سنوری اور ایٹم بم بھی بنا لیکن قائد اعظم کے بعد ملک کے سب سے بڑے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کا سہرا بھی اسی مارشل لاء کے سر جاتا ہے اور تاریخی مینڈیٹ لیکر آنے والے وزیراعظم کو بھی ڈکٹیٹر جلا وطن کرتے رہے۔ اس غیر یقینی صورتحال نے نہ ہمسائیوں سے بہتر تعلقات کی پالیسی کا تسلسل رہنے دیا اور نہ اقوام عالم میں ہم اپنی واضح شناخت حاصل کر سکے۔ 2013ء میں ایک جمہوری حکومت نے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار دیا تو یہ ایک تاریخی لمحہ تھا اور اس کے بعد ایک بار پھر اداروں کی لڑائی کے سانپ نے پھن اٹھایا اور اس بار اس کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ابھی تک اس کے جھٹکے محسوس ہو رہے ہیں، افواج پاکستان کے تھنک ٹینک نے شائد یہ سمجھ لیا کہ امیج بلڈنگ کا صحیح موقع یہی ہے اور خوش قسمتی سے انہیں آرمی چیف بھی ایسے میسر آئے جو نہ صرف شہیدوں کے خاندان سے تھے بلکہ ملک و قوم کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ بھی رکھتے تھے انہوں نے ہر مشکل وقت میں آگے بڑھ کر حکومت کی مدد کی اور ایک حد تک اس کو مضبوط بھی کیا۔ پس منظر میں دیکھیں تو سب ٹھیک ٹھاکچلرہا تھا کہ ایک نجی چینل نے ایسے زہریلے پروپیگنڈے کی مہم شروع کی جس کی کڑی اب پھر اڑھائی سال بعد جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اگر حالات کو بہ غور دیکھیں تو اس واقعہ کی سے ایک مہینہ قبل میاں نواز شریف صاحب وزراء کے ہمراہ بنی گالہ گئے اور عمران خان صاحب سے خوشگوار موڈ میں تفصیلی ملاقات کی جس کے بعد وزراء نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب نے سڑک کی حالت زار کا ذکر کیا ہے انشاء اللہ بنی گالہ کی سڑک جلدی بنوا دینگے یہ تھا مارچ 2014ء اپریل میں نجی چینل والا واقع ہوا اور مئی میں 4 حلقوں کی دھاندلی کی مہم زور پکڑ گئی اور پھر اگست میں دھرنے کا آغاز ہو گیا۔ اس منظر نامے کے بعد نتیجہ قارئین پر چھوڑتے ہوئے بیان کرتا ہوں کہ بعد میں معاملات میں شدت آتی چلی گئی پھر مشرف صاحب کے کمر درد سے لیکر انڈین پالیسی کے حوالے سے حکومت گھٹنے ٹیکتی گئی اور ایک سوگوار ترین واقعہ کے بعد دھرنے کا دھرن تختہ ہو گیا۔ دھرنے کے دوران جب آرمی چیف نے طاہر القادری اور عمران خان کو بلایا اور ثالثی کے حوالے سے میٹنگ کی تو اسمبلی کے فلور پر حکومت نے اس کی تردید کر دی جس نے ملک میں ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیکر معاملات کا ستیاناس کر دیا مانیں یا نہ مانیں میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ کو مضبوط کیا اس پلیٹ فارم کی عزت و توقیر میں اضافہ کیا آگے آنے والی دیگر حکومتیں ان کے کچھ بنیادی اصولوں پر لئے گئے سٹینڈ کا پھل کھائینگی جو انہوں نے نہایت مشکل وقت میں لیا اور اس بات کو ثابت کیا کہ امور حکومت کیلئے سب سے طاقتور ادارہ پارلیمنٹ ہے۔
جب دھرنا ختم ہو گیا تو نیشنل ایکشن پلان پر لڑائی شروع ہو گئی ڈان لیکس آیا اور غائب ہو گیا پرویز رشید گئے تو پھر راحیل شریف بھی چلے گئے کچھ عرصہ خاموشی رہی لیکن گزشتہ ہفتے سے سابق آرمی چیف کو آلاٹ کی گئی زمین اور کچھ بلاگرز کا لاپتہ ہونا جیسے معاملات پھر امڈ آئے ہیں، ایوان اقتدار کو چلانے والے اور ان کو قریب سے دیکھنے والے سرکل کو باخوبی اندازہ ہے کہ یہ کیا ہے، ان معاملات کے کچھ عرصے بعد مزید کچھ سامنے آئے گا اور یہ سلسلہ تب تک چلے گا جب تک کہ ہم اپنی اپنی لائنوں پر کام نہیں کرینگے یہ فقرہ ایک بار پھر سن لیں جو پہلے ہی سن سن کر کان پک چکے ہیں تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ سابق صدر صاحب نے کہا کہ تم نے چلے جانا ہے اور ہم نے ہمیشہ رہنا ہے فوج اور دیگر ادارے بھی یہی سوچتے ہیں کہ سیاستدان نے پانچ سال کیلئے حکومت کرنی ہے پھر چلے جانا ہے ان کا مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے کہ امریکہ اور انڈیا کے ساتھ کیا کرنا ہے، یہ اندرونی معاملات پر توجہ دیں، قارئین کرام ہم بیماری کی تشخیص پر توجہ دیئے بغیر صرف مریض کا علاج کر رہے ہیں۔ چنانچہ پراسس میں ہر مہینے بعد نئے نئے رنگ اور زخم سامنے آ رہے ہیں لیکن بیماری کا خاتمہ نہیں ہو رہا اور نہ ہی ایسی دوائوں سے ہو گا، اس کیلئے آئین پاکستان، اہلیت، نیت اور مستقل مزاجی کی ضرورت پڑے گی۔ جس کا امتزاج ابھی اداروں کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آ رہا۔

راجہ تیمور طا رق

راجہ تیمور طا رق

epaper

ای پیپر-دی نیشن