نہری پانی چوری ہو رہا، انتظام کو بہتر بنانا ہو گا: عابد شیر علی
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے اجلاس میں وزیر مملکت عابد شیر علی نے کہا کہ نہری پانی چوری ہورہا ہے، صوبائی حکومتیں روک تھام کے لیے اقدامات کریں، ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل ہونے چاہئیں، منصوبوں میں تاخیر سے ملک و قوم کا پیسہ ضائع ہوتا ہے، تاخیر کی تحقیقات کرکے قصور واروں کو سزائیں ملنی چاہئیں۔ ہم اپنا زیادہ تر پانی ضائع کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ریڈلائن کراس کر رہے ہیں، پانی کے انتظام کو بہتر بنانا ہو گا۔ قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ نے وزارت کیلئے آئندہ مالی سال کے پی ایس ڈی پی منصوبوں کے حوالے سے تجاویز کی منظوری دے دی، وزارت کی طرف سے مالی سال 2017-18 کے 180منصوبوں کیلئے 231 ارب روپے کی ڈیمانڈ کی گئی۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ وزارت پانی و بجلی کیلئے تجویز کئے گئے فنڈ کو مختص کر انے کیلئے وزارت خزانہ اور وزارت منصوبہ بندی و ترقی سے رابطہ کیا جائے گا، کمیٹی نے وزارت اور متعلقہ محکموں کو جاری منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ ممبران نے کہا کہ منصوبوں کی بروقت تکمیل نہ ہونے سے ان کی لاگت بڑھ جاتی ہے اور اس سے قومی خزانے کو نقصان ہوتا ہے، کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ مالی سال 2016-17کیلئے 173منصوبوں کیلئے 216ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی تھی لیکن صرف25سے 30فیصد فنڈ ہی جاری کئے گئے، وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا کہ آبپاشی صوبائی معاملہ ہے، اس کے باوجود اس شعبے کے مسائل کے حل کے لیے صوبوں سے تعاون کر رہے ہیں، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کا اجلاس گزشتہ روز چیئرمین کمیٹی ارشد خان لغاری کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں آئندہ مالی سال کیلئے وزارت پانی وبجلی اورذیلی اداروں کے ترقیاتی بجٹ کا جائزہ لیا گیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری پانی و بجلی نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پانی کے منصوبوں کیلئے وفاقی ترقیاتی بجٹ بہت کم ہے، بجٹ پہلے70 ارب روپے ہوتا تھا، اب31 ارب روپے ملتا ہے، آئندہ مالی سال پانی کے منصوبوں کیلئے 150ارب روپے کی ضرورت ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اتنا بجٹ تو وزارت کا نہیں ہے، جتنا آپ صرف پانی کے منصوبوں کیلئے مانگ رہے ہیں۔ رکن کمیٹی نواب یوسف تالپور نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز بروقت جاری کیے جائیں، تاخیر سے منصوبوں کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ واپڈا حکام نے بتایا کہ کچھی کینال منصوبے کی لاگت57 سے بڑھا کر 80 ارب کرنے کی تجویزہے۔ رکن کمیٹی جنید انوار چودھری نے کہا کہ اتنی لاگت بڑھنے پر کوئی احتساب بھی ہے؟ وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی زمین کا حصول اور آر ایل این جی منصوبوں کی کاسٹ پی ایس ڈی پی سے ادا کی گئی۔ قائمہ کمیٹی کو سیپکو حکام نے بتایا کہ آ ئندہ مالی سال کے لئے ہمیں سات ارب روپے کی ضرورت ہے۔گیپکو حکام کی طرف سے آ گاہ کیا گیا کہ گوادر میں ٹرانسمیشن لائن کے بڑے منصو بے سمیت تین جاری منصو بوں کے لئے فنڈز درکا ر ہیں۔ آئیسکو حکام کی طرف سے بتا یا گیا کہ چو تھے مر حلے میں پچاس منصو بو ں کے لئے 17ارب کی رقم درکار ہے۔ ایڈوانس میٹرنگ انفراسٹرکچر کے لئے 1800 ملین کی ڈیمانڈ کی ہے۔ تین سے چار سال سے مکمل ہو گا۔ اجلاس میں جنید انوار چوہدری، کرنل (ر) غلام رسول ساہی، سردار منصب علی ڈوگر، پیر محمد اسلم بودلہ، نواب یوسف تالپور، ملک غلام ربانی کھر، صاحبزادہ محمد یقوب، کاظم علی شاہ، وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی، وازارت پانی و بجلی اور ذیلی اداروں کے افسران نے شرکت کی۔