اصولوں کو دیکھنا ہے‘ وزیراعظم آتے جاتے رہتے ہیں: جسٹس عظمت
اسلام آباد (صلاح الدین خان) پانامہ پیپرز کیس میں شریف خاندان کے وکلاءکے دلائل مکمل ہونے کے بعد اب ” جواب الجواب“ اور تفتیشی اداروں کے سربراہوں کی باری آگئی۔ مقدمہ دراصل جہاں سے شروع ہوا تھا وہیں آن پہنچا۔ سوال وہی ہے اس ملک کے ادارے اپنا کام کیوں نہیں کررہے؟۔ عدالت کے نیلسن اور نیسکول کے ڈائر یکٹر ےا بییفشل اونرز کون ہیں کے استفسار پر حسن نواز اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جنوری 2006میں فلیٹوں کی ملکیت حسین کو ملی، فروری میں ٹرسٹ ڈیڈ بنائی جس کے تحت مریم کو سرٹیفیکیٹ منتقل ہوئے، جولائی د2006میں قانون تبدیل ہوا تو سرٹیفیکیٹ منسوخ کرکے رجسٹرڈ شیئرز ملے جو منروا کمپنی کے نام جاری ہوئے جبکہ جولائی 2006سے لے کر جون 2014 تک شیئرز منروا کمپنی کے پاس رہے اس کے بعد حسین نواز نے ٹرسٹی سروس کمپنی کی خدمات لیں,مریم کے پاس سرٹیفیکیٹ بطور ٹرسٹی رہے، موزیک فونسیکا کے مریم کو مالک بتانے کی منروا کمپنی کی دستاویز جعل سازی سے تیار کی گئی ، جنوری سے جولائی 2006تک اگر شیئرز مریم نواز کے پاس رہے تو انہوں نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاےابعدازاں شیئرز حسین نواز کے نام رجسٹرڈ کروادیے گئے وہ اب اس کے مالک ہیں انہوں نے اصغر خان کیس، میمو گیٹ سیکنڈل کیس وغیر کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ عدالت معاملے پر کمیشن تشکیل نہیں دے سکتی، قانون میں اس کی گنجائش نہیں، عوامی مفاد کے مقدمے میں ٹرائل نہیں کرسکتی، متعلقہ اداروں کو ہی ان کا کام کرنے دیاجائے اگر عدالت نے کمشن بنادےا تو اس سے شفاف ٹرائل متاثر ہوگا، جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ اربوں روپے کامعاملہ تھا مگر کہتے ہیں کوئی دستاویز نہیں، عدالت کا اتنا قیمتی وقت لگ رہا ہے ہم کیا کریں؟ اس پر جسٹس عظمت سعید نے برجستہ کہا کہ راول ڈیم میں جاکر مچھلےاں پکڑیں گے، کوشش کرتے تو بہت کچھ لے کر عدالت آسکتے تھے، مگر ٹینشن کے باعث اس معاملے میں ہم تو دوایوں پر آگئے ہیں،کیس میں ہم نے اصولوں کو دیکھنا ہے، وزیراعظم کو نہیں، وہ آتے جاتے رہتے ہیں، ہم سب آتے جاتے ہیں، ججوں نے بھی جانا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیس میں ایف بی آر کے چیئرمین کے ساتھ چیئرمین نیب کوِ ”منی لانڈرنگ کیس ، حدیبیہ ملز کا ریکارڈ طلب کرلےا ہے جس سے امکان پیدا ہوگےا ہے شاید پھر کوئی ”پنڈورا باکس“ کھلنے والا ہے؟ جسٹس عظمت سعید کے مکمل روبصحت ہونے تک کیس کی سماعت ہفتہ میں تین دن ہوگی۔
پانامہ کیس/اصول