• news

مقبوضہ کشمیر: یوم مزاحمت پر بھارت مخالف مظاہرے، پاکستانی پرچم پھر لہرا دئیے گئے

سرینگر (نیوز ڈیسک+ ایجنسیاں) مقبوضہ کشمیرمیں جمعہ کو لوگوںنے یوم مزاحمت کے موقع پر زبردست بھارت مخالف مظاہرے کئے جبکہ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروںنے مظاہرین پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا۔ یوم مزاحمت کی کال مشترکہ حریت قیادت نے دی تھی۔ کٹھ پتلی انتظامیہ نے احتجاجی مظاہروں کوروکنے کیلئے تمام بڑے قصبوں میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی بھاری تعداد کو تعینات کیا تھا تاہم سینکڑوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوںنے آزادی اور پاکستان کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے بلند کئے۔ انہوں نے پاکستانی جھنڈے بھی لہرائے۔ سرینگر، سوپور، اسلام آباد، پلوامہ اور دیگر علاقوں میں بھارتی پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پیلٹ گن، آنسو گیس اور پاوا شیلوں کا بے دریغ استعمال کیا جس کے بعد مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ پولیس کی کارروائی میں 35 افراد زخمی ہو گئے۔ انتظامیہ نے حریت رہنمائوں سید علی گیلانی، شبیر احمد شاہ، محمد اشرف صحرائی، مختار احمد وازہ اور قاضی یاسر کو مظاہروںکی قیادت سے روکنے کیلئے گھروں یا تھانوں میں نظربند رکھا اور انہیں نماز جمعہ ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ دریں اثنا سینئر حریت رہنمائوں میر واعظ عمر فاروق اور آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے سرینگر اور بڈگام میں عوامی اجتماعات سے خطاب میں کہا کہ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کا حالیہ بیان مکمل طور پر اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جسکے تحت بھارت نے اپنی فوج کو بے گناہ کشمیریوں کے قتل کا لائسنس دے رکھا ہے۔ ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے سرینگر میں ایک اجلاس کے دوران بھارتی فوج کے سربراہ کے بیان کی مذمت کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کشمیری مظاہرین کو مجاہدین کے کارندے جان کر انکے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ ادھر حریت رہنمائوں اور کارکنوں سمیت لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان میں حالیہ بم دھماکوں میں شہید ہونے والوں کی جمعہ کو سرینگر کے علاقے لالچوک میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ چیئرمین حریت کانفرنس سید علی گیلانی نے سندھ پاکستان کی ایک درگاہ میں ہوئے تباہ کُن خود کش حملے میں بڑے پیمانے پر ہوئے جانی نقصان پر اپنے گہرے رنج و غم اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کے لیے ہمدردی اور تعزیت کا پیغام ارسال کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی حرکتوں میں ملوث لوگ کسی بھی طور انسان کہلانے کے قابل نہیں ہیں اور انہیں ہر صورت میں عبرت ناک سزا مل جانی چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو ایک سازش کے تحت بدنام کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف بھارت براہِ راست طور اس ملک میں افرا تفری پھیلانے میں مدد کر رہا ہے اور دوسری طرف افغانستان کی سرزمین کو بھی پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ گیلانی نے پاکستانی حکومت، فوج، سیاسی ومذہبی تنظیموں اور عوام سے اپیل کی کہ وہ ایک جُٹ ہوکر دہشت گردی کے اس ناسور کا مقابلہ کریں۔ ادھر حریت رہنما محمد یاسین ملک نے امریکی نژاد بھارتی چینل ’’سی این این نیوز 18‘‘ کو دیئے انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارتی فوجیوں پر کشمیری نوجوانوں کا پتھرائو کوئی جرم نہیں بلکہ ہماری پرامن جدوجہد آزادی کا حصہ ہے۔ یاسین ملک کے اس بیان پر بھارتی میڈیا کو مرچیں لگ گئیں۔ سوشل میڈیا پر بھارتی باشندے اس بیان کو شیئر کر کے تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ ادھر کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے جمعہ کو اپنی کابینہ میں ردوبدل کیا جس سے انکی حکومت میں اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ سینئر وزیر بشارت احمد بخاری نے وزارت بدلنے پر احتجاجاً استعفیٰ دیدیا۔ علاوہ ازیں بھارتی فوج نے 27 سال بعدکورٹ آف انکوائری مکمل کر لی اور اعتراف کر لیا ہے کہ کل جماعتی حریت کانفرنس (ع) کے سربراہ میرواعظ عمرفاروق کے والد میرواعظ مولوی فاروق کے جنازہ میں شامل لوگوں پر اندھادھند فائرنگ کی تھی، جس میں 50 سے زیادہ شہری مارے گئے تھے۔ ریاست کے سرکاری انسانی حقوق کمشن کی پیش کردہ رپورٹ میں قتل عام میں ملوث15 فورسز افسروں و اہلکاروں کی نشاندہی کی گئی ہے تاہم ان اہلکاروں کے خلاف کسی کارروائی کا ذکر نہیں۔ دوسری جانب جموں کے ضلع سانبہ میں بھارتی فوج کے ایک اہلکار حوالدار کرشن سنگھ نے اپنی سروس رائفل سے خود پر گولی چلاکر خودکشی کرلی۔ پولیس کے مطابق سانبہ کے مہیشور علاقہ میں تعینات تھا۔ ادھر امور داخلہ کے بھارتی وزیر مملکت کرن ریجو نے بھی دھمکی دی ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں پتھرائو کرنے والوں کو اب برداشت نہیں کیا جائے گا۔ نئی دہلی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات کرتے انہوں نے کہا کہ عسکریت مخالف آپریشنوں کے دوران فوج پر خشت باری کرنے والے نوجوانوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانا اب ناگزیر بن گیا‘ فوجی سربراہ نے کچھ غلط نہیں کہا۔ وادی میں امن و امان بحال کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن