محض الزامات پر نااہل نہیں کیا جاسکتا :وزیراعظم کا سپریم کورٹ میں جواب داخل
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت پانامہ کیس میں درخواست گزار و عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت وزیراعظم میاںنواز شریف کو عوامی عہدہ کیلئے نااہل قراردینے سے متعلق رسپانڈنٹ وزیراعظم نواشریف کے وکیل نے اپنا جواب اور مقدمہ کے ایک اور درخواست گزارنے، عمران خان کی مبینہ آف شور کمپنی کا ریکارڈ بھی جمع کرا دیا ہے۔ مدعا علیہ نے جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ درخواست گزار نے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت مدعا علیہ کے نااہل ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دیا، محض الزامات ہی عائد کئے گئے ہیں، مسول علیہ عوام کے منتخب نمائندہ ہیں اس لئے انہیں محض الزامات کی بنا پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ،جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ مریم نواز اپنے والد و مسول علیہ (میاںنواز شریف)کے زیرکفالت نہیں ہیںاورنہ ہی درخواست گزار نے مسول علیہ کے خلاف ٹیکس چوری کاکوئی ثبوت فراہم کیاہے،مسول علیہ کے خلاف آرٹیکل 62اور 63 سے متعلق کسی عدالتی فورم کا فیصلہ موجود نہیں ہے،نہ اس کا نام پانامہ پیپرز میں ہے نہ ہی آف شور کمپنیوں کا بینی فیشل مالک ہے، نہ ہی پانامہ پیپرز لیکس کی تحقیقات میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالی ہے اور نہ ہی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر کوئی سوال اٹھایا، مسول علیہ نے مزید کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل184(3) کے تحت چلنے والے مقدمہ میں بھی کسی فریق کو فئیر ٹرائل سے متعلق آرٹیکل 10 اے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے،اس لئے درخواست گزار کو جرمانہ کے ساتھ یہ درخواست واپس کی جائے، دوسری جانب عمران خان کی مبینہ آف شور کمپنی کا ریکارڈ بھی جمع کرا دیا ہے، ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے جمع کروائی گئی دیگر اضافی دستاویزات میں، عمران خان کی مبینہ آف شور کمپنی کے قیام کا ریکارڈ، ان کے 1983 سے 2014 تک کے سالانہ ٹیکس ریٹرن اور ان کی جانب سے 2015 میں آف شور کمپنی ختم کرنے کا ریکارڈ، جہانگیر ترین کے عام انتخابات 2013 کیلئے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی، سکیورٹیزاینڈایکسچینج کمشن (ایس ای سی پی)کی جانب سے ان کے خلاف کی گئی کارروائی کا ریکارڈ، ان کامبینہ غیرقانونی طریقہ سے شیئرز کی خریداری وفروخت کے حوالہ سے اعترافی بیان اورایف بی آر کی جانب سے انہیں جاری کئے گئے نوٹسز جبکہ عمران خان اور جہانگیر ترین کی عوامی عہدہ کے لئے نااہلیت کیلئے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کا ریکارڈ بھی شامل ہیں، اضافی دستاویز ات میں شیخ رشید، لطیف کھوسہ اور پاکستان تحریک انصاف کے ریفرنسز کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔
نوازشریف جواب
قطرمیں سرمایہ کاری نہیں تو سیٹلمنٹ کیسی
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ آف پاکستان میں جاری پانامہ کیس میںشریف فیملی کی جانب سے بطور ثبوت پیش کئے جانے قطر کے سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ ،شیخ حمد بن جاسم بن جابر الثا نی کے دو خطوط سمیت طارق شفیع،عبدالرحمن محمد عبداللہ اور حسین نواز کے حلف ناموںکے حوالے سے عمران نے اپنے جواب(بیان حلفی) میں فاضل عدالت سے ان کومسترد کرنے کی استدعا کی ہے ، درخواست گزار عمران خان کے وکیل، نعیم بخاری کے ذریعے داخل کئے گئے 24صفحات پر مشتمل بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ شریف خاندان کی جانب سے عدالت میں ثبوت کے طور پر پیش کیے جانے والے شیخ حمد بن جاسم کے 5 نومبر اور 22 دسمبر 2016 کے دونوں خطوط سوچی سمجھی من گھڑت کہانی کا حصہ ہیں، جن میں شیخ حمد بن جاسم نے شریف خاندان کی جانب سے الثانی خاندان کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں 1980 میں 1 کروڑ 20 لاکھ درھم کی سرمایہ کاری اور معاہدے کی وضاحت پیش کی تھی، بیان حلفی میں شیخ حمد بن جاسم کے ذاتی کردار کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے خود سرکاری رقوم کو نجی اکائونٹس میں منتقل کیا تھا ،جس پر قطر کی حکومت نے ان کے خلاف انکوائری کی تھی ، 2002میں ان کے خلاف فوجداری انکوائری مکمل ہونے والی تھی کہ جب انہوںنے تین جرسی ٹرسٹوں سے متعلق انکوائری کے خرچہ کے طور پر 6ملین برطانوی پائونڈز رضا کارانہ طور پر ادا کئے تھے ، ان پر اپنے ایک سابق ساتھی و سابق حکومتی ترجمان کو اکتوبر2009سے لیکر جنوری 2011تک نجی قید میں رکھ کر اسے تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام بھی سامنے آیا ہے ، اب اس کردار کا حامل شہزادہ جعلی خطوط کے ذریعے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بچانے کے لئے سامنے آیا ہے ،اس کے یہ خطوط ناقابل یقین اور قطر کے ایک امیر شخص کی جانب سے پاکستان کے ایک امیر خاندان کے افراد کو مقدمہ سے بچانے کی ایک بچگانہ کوشش کے مترادف ہیں۔این این آئی اور ٹی وی کے مطابق ہم ان کے بیان حلفی میں کہا گیا کہ حسین اورمریم نواز کے درمیان بنائی گئی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔مے فیئر کے اپارٹمنٹ کی خریداری کی بینک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا ٗلندن میں جائیداد خریداری کی رقم سولیسیٹر کے اکائونٹ میں جمع کرانے پڑتی ہے۔سولیسیٹر لارنس ریڈلے نے الثانی خاندان کے لیے فلیٹس خریدنے کی تصدیق نہیں کی،شریف فیملی کی طرف سے فلیٹس کا کرایہ ادا کرنے کا ریکارڈ بھی پیش نہیں کیا گیا۔درخواست میں کہا گیا کہ نواز شریف کے مطابق لندن فلیٹس جدہ اسٹیل مل کی فروخت سے خریدے گئے ٗوزیراعظم نواز شریف کے بیان کو حسین نواز کے بیان پر فوقیت دی جائے،فلیٹس کی خریداری کے وقت حسین نواز کم عمر تھے،حمد بن جاسم اور نواز شریف نے کسی قسم کی بینک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ نہیں دیا۔عمران خان نے بیان حلفی میں کہا کہ ان کی جانب سے جو کچھ کہا گیا وہ بالکل درست ہے عدالت سے کچھ چھپایا نہیں گیا۔ قطر میں سرمایہ کاری تھی ہی نہیں تو سیٹلمنٹ کیسے ہو گئی۔ اضافی دستاویزات متفرق درخواست میں جمع کرائی گئی ہے۔ اضافی دستاویزات میں حسین نواز کے 19 جنوری 2016ء اور 4 اپریل 2016ء کے انٹرویو کے ٹرانسکرپٹ شامل ہیں۔
جواب دلائل