دہشت گردی کی نئی لہر
رواں ہفتے دہشتگردی کے پہ درپہ واقعات نے جہاں ہرحساس دل پاکستانی کو خون کے آنسو رلادیا ہے وہیں حکمرانوں کی غفلت اور نااہلی کو بھی آشکار کردیا ہے کہ جب کوئی ملک حالت جنگ میں ہوتا ہے تووہ اس وقت تک اپنے جنگی کمانڈر کو ریٹائرڈ یا تبدیل نہیں کرتا ہے جب تک کہ دشمن نیست ونابود نہ ہوجائے مگرایک ہفتے میں آٹھ سے زیادہ دہشتگردی کے واقعات اور سینکڑوں معصوم پاکستانی افراد کی شہادت حکمرانوں کے ضمیراور دل ودماغ کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہے کہ تم لوگ اپنی اپنی اناؤں اور سیاسی مصلحتوں کی آبیاری کرو۔جنرل راحیل شریف کو مقررہ مدت ملازمت پر گھربھجواؤ نیشنل ایکشن پروگرام کا ستیاناس کرو۔ رانا ثناء اللہ جیسے غیرسنجیدہ وزیرکے ذریعے پنجاب میں رینجرز اور فوجی عدالتوں کی مخالفت کروتمہیں اس سے کیا کہ 70سال قبل 11اگست 1947ء کو قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے سامنے تقریرکرتے ہوئے فرمایا تھا حکومت کا پہلا فریضہ امن وامان برقراررکھنا ہے تاکہ مملکت کی جانب سے عوام کو انکی زندگی جائیداد اور مذہبی اعتقادات کی پوری پوری ضمانت حاصل ہو۔
لاہور، پشاور، آواران کے بعد سیہون شریف میں درگاہ شہباز قلندر پر خودکش دھماکہ میں سینکڑوں شہادتوں اور حقائق کے باریک بینی سے جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دھماکے ایک مخصوص شدت پسند ذہنیت کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئے ہیں جب تک تکفریت پسند مذہبی مدرسوں میں جنگجوانہ مذہبی سوچ وفکرکو غریب گھرانوں کے طالب علموں کے ذہنوں میں پروان چڑھایا جاتا جائیگا اس نفرت آمیزشدت پسندی کی پنیری سے معصوم اور بے گناہ پاکستانی شہری اورسکیورٹی فورسز کے جوان رعنا شہادت کے جام پیتے چلے جائینگے اگرہم حقائق کو پرکھیں تومعلوم ہوگا کہ 1995ء سے لے کر آج تک دہشتگردی کے مختلف واقعات ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں دہشت گردی کے تربیت کے محفوظ مراکزافغانستان میں ہیں را کی انہیں تکنیکی اور مالی معاونت حاصل ہے۔ پاکستان کے تمام علاقوں میں حتیٰ کہ دارالحکومت میں طالبان اور داعش کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے مدارس اور سہولت کارہرجگہ پر موجود ہیں۔
تمام حکومتیں چاہے وہ فوجی ہوں یاجمہوری دہشتگردی پرقابو پانے میں مسلسل ناکام ہیں سوائے جنرل راحیل شریف تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی کے تین سالہ آرمی چیف کے دور میں سیاست دانوں کی تمام ترمزاحمت اور حکمرانوں کی بزدلانہ سوچ کے باوجود ضرب عضب آپریشن کو کامیابی سے آگے بڑھایاگیا۔2015ء میں دہشت گردی کے واقعات میں 43فیصد اور اموات میں 38فیصد کمی ہوئی مگر جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد لگتا ہے کہ یہ مسئلہ اب حکومت کے ہاتھ مکمل طور پر نکل گیا ہے جبکہ فوج بھی جو گزشتہ دور میں امن وامان قائم رکھنے اور حکومت پر نیشنل ایکشن کے تحت دباؤ برقرار رکھنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑرہی تھی اب لگتا ہے کہ وہ بھی دہشتگردوں کو کچلنے کیلئے ضرب عضب اورنیشنل ایکشن پلان کو عملی طور پر نافذالعمل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے دہشت گردوں کے سیاسی ونگز نے اگلے الیکشنوں میں اہم کردارادا کرنا ہے لہٰذا کیسے ممکن ہے کہ مسلم لیگ اپنے ان فطری سیاسی مذہبی جماعتوں کو ناراض کردے جو ہمیشہ سے سکیورٹی اداروں کے بلاتمیز دہشت گردوں کو کچلنے کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ حضرت عثمان مروندی لال شہباز قلندر، حضرت بری امام، حضرت شاہ غازی نورانی، بابافرید شکرگنج، رحمان بابا اور حضرت سخی سرورکی درگاہوں پر خودکش حملوں کے پیچھے کون سے محرکات ہیں۔ کون سی نام نہاد مذہبی عصبیت ہے سب لوگ اس سے واقف ہیں مگرخوف مصلحت اور منافقت کے شکار اہل اقتدار دانشور اور مذہبی زعما اس کی مذمت کرنے سے قاصرہیں۔ جب بھی خودکش دھماکوں کے نتیجے میں بے گناہ اور معصوم انسانوں کی زندگیوں سے کھیلا جاتا ہے تو اکثر لوگوں کا مؤقف ہوتا ہے کہ سکیورٹی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے ایسا ہوا ہے حالانکہ یہ بات سب کومعلوم ہے جلسے جلوس اور مزارات پر جہاں خلق خدا کا ہجوم ہوتا ہے وہاں خودکش بمبارکو کوئی سکیورٹی سٹرٹیجی نہیں روک سکتی ہے اور نہ ہی پولیس اور سکیورٹی اداروں کے افسران اور جوان خودکش بمبار کو انسانی جانوں کو ہلاک کرنے سے روک سکتے ہیں زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ وہ کیپٹن مبین اور زاہد گوندل کی طرح اپنے ساتھیوں سمیت خودکش بمبارکے ہاتھوں اپنی جان بھی سپرد آفرین کردیں سوایسا ہمارے سکیورٹی فورسز کی اکثریت کررہی ہے مگراصل بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی اورفوجی رہنماؤں نے کوئی ایسی انٹی ٹیرسٹ سٹرٹیجی کے خدوخال واصح نہیں کئے ہیں جس پر بغیر کسی مصلحت کے مکمل طور پر عملدرآمد کیا جائے۔ ہسپتالوں، سکولوں، کالجز، مسجدوں، امام بارگاہوں اور درگاؤں کے باہر پولیس اور چیکنگ سے دہشتگردی کی کاروائیوں پر قابوپانا ناممکن ہے۔ پاکستان کا شمار دہشتگردی کے فروغ دینے والے پانچ نمایاں ممالک میں ہوتا ہے اور اسی لئے 72فیصد دہشتگردی کے واقعات پاکستان عراق افغانستان شام اور نائجیریا میںہوتے ہیں مگریہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں کی بڑی وجہ ہمارا افغانستان کے ساتھ کھلا بارڈر ہے ۔
ہمارے ہاں ہر حکومت کیلئے یہ آسان طریقہ رہا ہے کہ وہ دہشتگردی کا الزام کسی غیرملکی طاقت کے سرپر تھوپ دے اور اس الزام تراشی سے قانون نافذ کرنیوالے ادارے دہشتگردوں کی تلاش اور پکڑنے سے بری الزمہ ہوجاتے ہیں اگرچہ ہم پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں دشمنوں کی سرپرستی سے یکسرانکارنہیں کرسکتے ہیں مگراصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں دہشتگردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کی صلاحیت سے عاری دکھائی دے رہی ہیں۔ علاوہ ازیں حکومت کے سیاسی عزم میں وہ کمٹمنٹ نہیں ہے جو اس حساس مسئلے سے مکمل طور پر نبردآزما ہوسکتے۔ ٹیکٹا جیسے ادارے کو ابھی تک فعال نہیں کیا گیا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے میں حکمران اور اپوزیشن دونوں ہی راضی نہیں ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں اس پر عمل درآمد کرنے کیلئے حکومت پر زورزبردستی کی جاتی تھی جس کی اب کوئی نظیرنہیں ملتی ہے۔ لہٰذا ہم آج دہشتگردی کے عفریت پر قابوپانے میں ناکامی کے تین وجوہات بیان کرسکتے ہیں اول سکیورٹی ایجنسیوں اوروفاقی و صوبائی حکومتوں کے مابین مؤثر رابطوں کا فقدان ہوم دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سیاسی سطح پر قوت ارادی اور جذبہ عمل کا فقدان۔