سیہون شریف سے۔۔۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے آبائی شہر سیہون شریف میں ہوں۔ جمعرات کی شام اپنے لائیو شو کا آغاز ہی کیا تھا کہ کان میں PCR سے دہلا دینے والا پیغام ملا اور پھر سکرین دم توڑتے بچوں، بوڑھوں اور چیختی بلبلاتی بچیوں سے لہولہان ہو گئی۔ ابتدائی خبریں اتنی بڑی تعداد میں اموات کا اشارہ نہیں دے رہی تھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ جب ابتدائی طبی امداد نہ ملنے کے سبب زخمیوں نے دم توڑنا شروع کیا تو رات کے آخری پہر میں یہ تعداد 100 تک پہنچ چکی تھی۔
ایک پروفیشنل صحافی اور اس سے زیادہ دل گرفتگی نے ایسا بے چین کیا ہوا تھا کہ رات ہی کو سیہون جانے کی تیاری شروع کر دی۔ مگر ایک تو کراچی سے حیدرآباد اور پھر سیہون تک اُجڑی ہوئی سڑکیں اور دیو قامت ٹرکوں اور ٹرالروں کا ایسا ہجوم تھا کہ سیہون پہنچتے پہنچتے دوپہر کا ایک بج گیا۔ سیہون شریف کا سارا بازار بند تھا اور مقامی آبادی سہمے ہوئے چہروں سے لعل شہباز قلندر کی درگاہ کے ارد گرد سر جھکائے آنسو بہاتے نظر آئی۔ مگر جیسے ہی کیمرہ اُنکے سامنے آیا ڈرے سہمے سوگ میں ڈوبے لوگوں کی زبانیں آگ اُگلنے لگیں۔ ’’سائیں‘‘ درجن بھر ایمبولینس بھی نہیں تھیں۔ فرلانگ بھر کے فاصلے پر ٹراما سینٹر جہاں 100 ڈاکٹروں کو ہونا تھا 10 بھی نہیں تھے۔ وزیر اعلیٰ جس کے اپنے شہر میں قیامت برپا تھی آٹھ گھنٹے بعد پہنچے۔ میڈیا کی DSNG گاڑیاںاور مائیک بھی بس بریکنگ خبریں چلا رہے تھے۔ یہ اپیل نہیں کر رہے تھے کہ ڈاکٹر آئیں، خون دیں، ایمبولینسیں پہنچیں۔ ’’سائیں‘‘ ہم برباد ہو گئے، گھر اُجڑ گئے۔ چہار جانب سے یہ ہی صدائیں آ رہی تھیں۔ مزار شریف کے اندر داخل ہوا تو مائیک کے سامنے زبان گُم ہو گئی۔ خونی اعضاء کے لوتھڑے، اجرکیں، چادریں، جوتے اور چپلیں خون آلود۔ بتایا گیا کہ سکیورٹی کے اداروں نے سختی سے کہا ہے کہ کوئی چیز اِدھر سے اُدھر نہ ہو حتیٰ کہ فرش پر بو دیتے خون کے دھبے بھی۔ وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں معلوم ہوا کہ سرکٹ ہائوس میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں مقامی انتظامیہ سے بریفنگ لے رہے ہیں۔ سخت سکیورٹی سے لگا کہ وزیر اعظم لعل شہباز قلندر کے مزار پر حاضری بھی دیں گے۔ مگر گھنٹے بھر بعد معلوم ہوا کہ انٹیلجنس نے اجازت نہیں دی۔ زخمیوں کو دیکھنے سابق صدر آصف زرداری کے شہر نوابشاہ چلے گئے ہیں جو بینظیر آباد کہلاتا ہے۔ یہ خبر بھی اُس تصویر سے ملی جو سرکاری طور پر جاری ہوئی تھی اور جس میں وہ ایک ہسپتال میں ایک بچی کو تسلی دے رہے تھے۔ وزیر اعظم کی مزار شریف نہ آنے کی تصدیق ہوئی تو گھنٹوں سے انتظار کرتے زائرین کیلئے دروازے کھول دیئے گئے۔ ٹھیک اُسی وقت یعنی 24 گھنٹے پہلے 6 بج کر58 منٹ پر خودکش حملہ آور نے دھمال ڈالنے والوںکو خون میں نہلا دیا تھا۔ لعل شہباز کے عقیدت مند ایک بار پھر وجد میں آکر دھمال ڈال رہے تھے۔ سخی شہباز قلندر۔۔۔ دما دم مست قلندر۔۔۔ یہ پیغام تھا دہشتگردوں اور خود کش حملہ آوروں کو جو ایک دہائی سے تعلیمی اداروں، بازاروں، درگاہوں اور امام بارگاہوں پر خودکش حملے کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی شریعت کی دہشت سے پوری قوم کو موت کی نیند سلا دینگے۔ نہ وہ اب تک کامیاب ہوئے ہیں اور نہ انشاء اللہ اُنکی درندانہ خواہشیں اور خواب کبھی پورے ہونگے۔