کیا یہ چمن یوں ہی رہے گا؟
پرانا سادا سا شعر ہے:
؎یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گے
مگر پھر اپنے چمن کو دیکھ کر وحشت سی ہونے لگتی ہے کہ کیا یہ ’’چمن یوں ہی رہے گا؟‘‘ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دینے کے باوجود ہم ہی دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہیں گے؟ وقفے وقفے سے کبھی لاہور، کبھی پشاور، کبھی کوئٹہ اور کبھی کراچی سے سیہون شریف تک خوف کا آسیب بے گناہوں کی جان لیتا رہے گا؟ وزیراعظم نوازشریف نے بے رحم آپریشن کی بات کی ہے‘ سپہ سالار قمر جاوید باجوہ نے ایک ایک لہو کے قطرے کا حساب چکانے کا حوصلہ افزا بیان دیا ہے۔
اپوزیشن کے تمام رہنما مذمتی بیان جاری کر رہے ہیں مگر ’’بُکل کے چور‘‘ ایک عرصہ سے محفوظ پناہ گاہوں میں بلکہ ’’بُکل‘‘ میں پہلے کی طرح پل بڑھ رہے ہیں اور موقع پاتے ہی بغل کی چھری کام دکھا جاتی ہے۔ یہ بُکل کا چور اور ’’بغل کی چھری‘‘ تمام تر کوششوں کے باوجود کیوں محفوظ ہیں؟ اگر اس سوال کا جواب تلاش کرکے صحیح رخ پر اقدامات کیے جائیں تو اس چمن کی حالت میں آج بھی تبدیلی ممکن ہے۔ خودکش دھماکوں کے پس منظر میں دو بڑے بھوت صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک پاکستان کی سالمیت کے دشمن پڑوسی اور دوسرے فرقہ واریت کے کاروبار سے اپنی دال روٹی کا اہتمام کرنے والے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ بھارت سمیت مخالفوں کی ایجنسیاں بھی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے فرقہ واریت کے بھوت کی مدد سے آگے بڑھا رہی ہیں۔ پاکستان کی محب وطن طاقتوں کو کھوج اس بات کی لگانا چاہیے کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر کام کرنے والے قائدین کی فنڈنگ باہر سے کیسے ہو رہی ہے۔ یہ گنتی کے چند قائدین ہیں جو باہر سے فنڈ لیتے ہیں اور پھر اندرون ملک عقیدے کی آگ بھڑکا کر اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو کیش کروا کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرواتے اور باہر سے ہونے والی فنڈنگ کا ’’حق نمک‘‘ ادا کرتے ہیں۔ ایسے عناصر کے قلع قمع کے لئے پاکستان کی سالمیت کی ذمہ دار قوتیں سزا کے عمل کو مؤثر بنانے کے لئے فوجی عدالتوں‘ بے رحم آپریشن یا ایسے دوسرے اقدامات کے لئے کچھ کہتی ہیں تو جو عناصر بھی جمہوریت‘ سول کورٹس کی اہمیت‘ انسانی حقوق اور اسی طرح کے بہانوں سے مخالفت کرنے لگتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح سے دہشت گردوں کے سہولت کار ہی ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے بے رحم آپریشن ہوا اور سخت اقدامات اٹھائے گئے تو اس بھوت یا بُکل کے چور اور بغل کی چھری سے نجات ملی ہے۔
ہمارے چمن کو اس وقت ان گنت سازشوں کا سامنا ہے۔ شاہراہ قائداعظم پر خودکش دھماکے والی ’’جوڑی‘‘ اگر پیدل آئی تو قریب ہی رات کو کہیں قیام کیا ہوگا۔ سیہون شریف میں برقع کی آڑ میں جو خودکش داخل ہوا وہ کسی کے ہاں قریب ہی قیام پذیر ہوا ہوگا۔ معاشرے میں فرقہ واریت کی بنیاد پر ’’جہاد‘‘ کی الگ الگ تشریح نے بے رحم صورت حال پیدا کر دی ہے۔ ہمارے سارے صاحبان اختیار کو‘ سارے علماء کو‘ ساری فقہی قیادت کو سوچنا ہوگا کہ اگر پاکستان ہے تو سب ہیں۔ فرقہ واریت کو کاروبار کی صورت دینے سے کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ دہشت گردی کی سوچ کا خاتمہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اسی سوچ کا فائدہ پاکستان مخالف تمام قوتیں اٹھا رہی ہیں۔ اِکا دُکا گرفتاریوں سے مسئلہ جزوی طور پر ٹھیک ہوسکتا ہے مگر مسئلہ کا مکمل حل اس سوال کے جواب میں ہے کہ دہشت گردی کے وسائل کو ختم کیا جائے۔ فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کو سختی سے کچل دیا جائے۔ سزا کے عمل کو مؤثر بنایا جائے اور باہمی ہم آہنگی کے لئے بھرپور تحریک چلائی جائے‘ ورنہ یہ چمن یو ہی رہے گا۔ یوں ہی وقفے وقفے سے اپنوں کے لہو سے زمین سیراب ہوتی رہے گی۔