پر سکون پرانا زمانہ اور بے سکون نیا زمانہ
میں جب اپنے بچپن کے زمانے کو یاد کرتا ہوں۔ تو اس زمانے کے لوگوں میں قناعت پسندی۔ اطمینان اور صحت کے کم سے کم مسائل یاد آنے لگتے ہیں۔ اس زمانے میں لوگوں کے پاس روپے پیسے کی ریل پیل نہیں تھی لیکن صبر اور شکر کی دولت انکے دلوں میں جمع رہتی تھی جسکی وجہ سے وہ بلا جواز شان و شوکت بڑے بڑے محل نما گھروں اور بازاری برگروں، پیزوں وغیرہ میں کشش محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ گھر میں بیگمات کے ہاتھوں کی پکی ہوئی ترکاری، گوشت اور پلائو زردہ انکی پسندیدہ غذا تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس زمانے کے لوگ بہت صابر اور شاکر ہوا کرتے تھے ان میں دنیاوی لالچ کی ایسی بہتات نہیں تھی جو آج کے بے سکون زمانے میں ایک بیماری کی طرح پھیلی ہوئی ہے اور غریب تو غریب امیر لوگوں کو بھی مسلسل ڈپریشن میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔ یہ قصہ مجھے ڈپریشن کے بارے میں ایک جدید تحقیق کے مطالعہ سے یاد آیا ہے۔
گزری عمر کے قصے یاد دلا جاتی ہیں
کیسی کیسی یادیں ہیں جو آتی جاتی ہیں
ڈپریشن توڑ ادویات کی فروخت پوری دنیا میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک تازہ ترین تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ 1990ء کی دہائی کی نسبت موجودہ سال میں ڈپریشن توڑ ادویات کے استعمال میں پچاس فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈپریشن توڑ ادویات کے زیادہ استعمال کا ایک سبب یہ ہے کہ ایسی ادویات مسلسل کھانے سے یہ اپنا اثر کھو دیتی ہیں اور پھر خوراک زیادہ کرنا پڑ جاتی ہے۔ ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ مسلسل دس سال تک ڈپریشن توڑ ادویات لینے والے افراد پر یہ ادویات اثر دکھانا چھوڑ دیتی ہیں۔ 1995ء میں ڈپریشن توڑ ادویات کا فی شخص دورانیہ چار ماہ سے بھی کم تھا لیکن اب ایک سال میں انکے استعمال کا دورانیہ چار ماہ سے بڑھ کر چھ ماہ ہو چکا ہے۔ دنیا بھر میں ہر چار اشخاص میں سے ایک شخص اوسطاً پندرہ ماہ ڈپریشن توڑ ادویات استعمال کرتا ہے جبکہ آج سے بیس سال قبل یہ دورانیہ صرف آٹھ ماہ ہوا کرتا تھا۔ یورپ کے ایک ماہر نفسیات نے انکشاف کیا ہے کہ وہ ایسے بہت سے افراد کو جانتے ہیں جو گزشتہ بیس سال سے ڈپریشن توڑ ادویات استعمال کر رہے ہیں۔ 1990ء کے بعد سے ان ادویات کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور چھ سے سات فیصد کے حساب سے یہ تعداد ہر سال بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایک اور تحقیق بتاتی ہے کہ انگلستان میں2005ء تک ڈاکٹر حضرات جو ڈیپریشن توڑ نسخے لکھتے تھے ان کی تعداد تین کروڑ کے لگ بھگ تھی۔2015ء میں یہ تعداد بڑھ کر چھ کروڑ دس لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ڈاکٹروں کی فیس اور ڈپریشن توڑ ادویات کی خرید و فروخت پر صرف برطانیہ میں ہر سال اٹھائیس کروڑ پچاس لاکھ پائونڈ خرچ کئے جا رہے ہیں۔ عام طور پر یہ ادویات چھ ماہ کیلئے تجویز کی جاتی ہیں لیکن اگر چھ ماہ میں کوئی افاقہ نہ ہو تو ان ادویات کا استعمال دو سال تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ برطانیہ کے ایک تحقیقی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق ہر چوتھا برطانوی کسی نہ کسی ڈپریشن کا شکار ہے۔ یہ تحقیق بتاتی ہے کہ 1960ء میں برطانوی شہریوں کو پینتالیس سال کے بعد ڈپریشن کی بیماری شروع ہوئی تھی لیکن اب یہ ہماری چودہ سال کی عمر ہی سے آغاز پذیر ہو جاتی ہے۔ اور برطانوی شہری خود کشی کرنے لگتے ہیں۔ گزشتہ چودہ برس میں نوجوانوں میں خود کشی کے رجحان میں116فیصد اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جبکہ ذہنی صحت کی بحالی کیلئے خاص مراکز میں بھیجے جانیوالے ڈپریشن کا شکار لوگوں میں بیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ انسانی معاشرے کے ترقی اور آگے بڑھنے کی ہوس نے انسانوں کو دیوانہ بنا کر رکھ دیا ہے اور یہی دیوانگی انسانوں کو ڈپریشن کا تیزی سے روگ لگائے چلی جا رہی ہے۔
کر کے دیوانہ بندے کو مرواتی ہے
کیسے کیسے رنگ ترقی دکھلاتی ہے
ایک تحقیق میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور جدید ترین طرز رہائش بھی شہریوں میں ڈپریشن کا مرض پیدا کر رہی ہے۔ طالب علموں میں اعلیٰ تعلیم اور ڈگریاں حاصل کرنے کا جنون بھی نوجوانوں میں اس مرض کو تیزی سے پھیلا رہا ہے۔ وہ ڈگریاں تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن باقی ساری زندگی کسی نہ کسی انداز میں ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں۔ مغربی ممالک کے ڈاکٹروں نے ڈپریشن توڑ ادویات سے چھٹکارا پانے کا ایک طریقہ دریافت کیا ہے‘ وہ ہے گفتگوئی علاج۔ ڈپریشن کے مریضوں کیلئے ڈاکٹروں نے خاص پینل بنا رکھے ہیں جو ڈپریشن کے مریضوں سے شگفتہ گفتگو کرتے ہیں، اس طرح مریضوں پر ڈپریشن کا دبائو کم ہونے لگتا ہے اور وہ ڈپریشن کی ادویات سے چھٹکارا حاصل کرنے لگتے ہیں۔ یہ سب حقائق پڑھ کر اچانک ہمیں اپنا وطن پاکستان یاد آ گیا۔ پاکستانی مردوں کی بھی ایک خاصی بڑی تعداد ڈپریشن کے امراض میں مبتلا ہے جبکہ پاکستانی عورتیں خوش باش دکھائی دیتی ہیں اس صورت حال پر غور کیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ پاکستانی مرد اپنے اصل معاشی اور معاشرتی مسائل دوستوں سے کھل کر بیان نہیں کرتے نتیجہ یہ کہ نفسیاتی دبائو میں آ جاتے ہیں اور الٹی سیدھی حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔ انکے مقابلے میں پاکستانی عورتیں اپنی سہیلیوں سے تمام مسائل پر مشورہ بھی کرتی ہیں اور اپنے مسائل پر اپنے شوہروں پر غصہ بھی نکالتی رہتی ہیں۔ کاش مغربی دنیا کی خواتین کو بھی یہ ہنر آ جاتا تو انکی ڈپریشن ختم ہو سکتی تھی۔