شہر بھی ہوتے ہیں تاریخ بنانے والے اور داتا نگری
ملتان میں دانشور علمی و ادبی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی اور ڈاکٹر سلیم اختر پر پی ایچ ڈی ہو رہی ہے تو ان دونوں پروفیسروں نے بہت تحقیقی اور تخلیقی کام کیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ اتوار کے دن غیرسیاسی کالم لکھوں ویسے ڈاکٹر تونسوی نے ادبی سیاست بہت کی ہے۔ یہ اچھا ہے کہ زندہ لوگوں پر بھی پی ایچ ڈی ہونے لگی ہے۔ ڈاکٹر تونسوی نے بے شمار کام کیا ہے۔ وہ اور ڈاکٹر سلیم اختر جیسے لوگ اس کے مستحق ہیں کہ ان پر اعلیٰ سطح کا تحقیقی کام ہو۔
تب بڑی ادبی معرکہ آرائیاں ہوتی تھیں۔ ہماری سیاست میں اتنی گرما گرمی نہ تھی جو ادبی میدانوں میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ ایک باقاعدہ ادبی ماحول ہر طرف بکھرا ہوا ملتا تھا۔ ادبی بحثیں ہوتی تھیں۔ مشاعرے ہوتے تھے۔ مشاعرے تو اب بھی ہوتے ہیں مگر بات نہیں بنتی۔ مشاعرہ نہیں بھی ہوتا تھا تو پاک ٹی وی میں اکھٹے بیٹھے لوگ ایک دوسرے کو تازہ اشعار سناتے تھے اور داد بھی دیتے تھے۔
ملتان میں ڈاکٹر طاہر تونسوی تحقیقی اور تخلیقی حوالے سے ایک مقام رکھتے ہیں ورنہ ملتان میں کچھ لوگ ہیں جو ہر قسم کی صورتحال کو مزاحیہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوستوں کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں اور اس طرح اپنی علمی و ادبی حیثیت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر تونسوی صاحب سنجیدگی سے ادبی معاملات کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ ایک مرکزی شخصیت ہوتے ہوئے انہوں نے ملتان میں ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا ٹھکانہ بنایا ہے۔ ملتان ایک مرکزی شہر ہے مگر یہ بات مقامی سکالروں اور نام نہاد دانشوروں سے پوچھنے والی ہے کہ ملتان ایک علمی و ادبی شہر نہیں بن سکا۔ کیا ادبی حوالے سے بھی سیاست غالب آتی ہے۔ لاہور کراچی اسلام آباد راولپنڈی اور پشاور کا نام اب ایک معروف حیثیت میں لیا جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر فیصل آباد ملتان حیدر آباد بہاولپور وغیرہ آتے ہیں۔
جن دنوں ندیم صاحب اور وزیر آغا کے درمیان ادبی گروپنگ ہو رہی تھی تو سرگودھا کا نام بھی سامنے آیا تھا کیونکہ وزیر آغا نے لاہور میں قیام رکھنے کے باوجود سرگودھا میں مستقل سکونت رکھی ہوئی تھی۔ اب ندیم صاحب اور وزیر آغا دونوں وفات پا چکے ہیں۔ سرگودھا کا نام پھر پس منظر میں چلا گیا ہے۔ اب انور سدید بھی فوت ہو گئے ہیں۔
لاہور کی حیثیت تو دائمی اور ادبی ہے۔ اسے داتا کی نگری بھی کہتے ہیں۔ داتا گنج بخش نے اپنی شہرہ آفاق کتاب کشف المححوب میں لکھا ہے کہ لاہور شہروں کا سردار ہے۔ یہاں جو بات کی جائے گی وہ ساری دنیا میں مشہور ہو جائے گی۔ جو لاہور آ گیا وہ معروف ہو گیا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر میں میانوالی میں رہتا تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو جاتا۔ اب لاہور نے مجھے اپنے مینار پر جگہ دے دی ہے۔
مجھے یاد آ رہا ہے کہ ہم گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے تو تقریباً روز داتا صاحب حاضری کو سعادت ملتی تھی۔ اب وہاں بہت بڑے مصنف ادیب سکالر ڈاکٹر طاہر رضا بخاری محکمہ اوقاف میں ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ ان کا دفتر داتا دربار کے اندر ہے۔ ان کے دفتر سے دو قدم کے فاصلے پر مسجد داتا صاحب ہے۔ وہاں مولانا رمضان سیالوی ہیں اور عارف سیالوی صاحب محکمہ اوقاف کے حوالے سے پنجاب بھر کے خطیب ہیں۔ میں انہیں کہتا ہوں بھائی اور پیر بھائی سیالوی صاحب۔ بخاری صاحب اور سیالوی صاحب کی وجہ سے اکثر داتا صاحب جانے کی سعادت مل جاتی ہے۔
ایک دفعہ گورنمنٹ کالج کے نیو ہوسٹل میں میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی مجھے ملنے کے لیے آئے اور کہا کہ ذرا ہجویری کو مل آئیں۔ میں اس بے تکلفی پر حیران ہو گیا۔ منیر نیازی خود بہت بڑے صوفی تھے۔ انہیں اولیااللہ سے خاص نسبت تھی۔ میں ان کے ساتھ ہو گیا۔ منیر نیازی قبر مبارک کے سامنے جا پہنچے۔ انہیں بھلا کون روک سکتا تھا۔ یہ اعزاز میرے نصیب میں بھی تھا۔ منیر نیازی کی شخصیت بہت محبوب تھی۔ اسرار اور انوار سے بھری ہوئی ان کی شخصیت کبھی کبھی زیادہ نکھر نکھر کر بکھرتی تھی۔ یہ ساٹھ کی دہائی کے آخر کا زمانہ تھا۔ انہوں نے داتا دربار پر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا اے اللہ محمدالرسول اللہ کے صدقے مجھ پر اجمل پر اور داتا ہجویری پر رحم فرما اور واپس مڑ آئے۔ پھر دیر تک میرے پاس نیو ہوسٹل میں بیٹھے رہے۔ مجھے اپنی دو کتابیں عطا کیں اور یہ بات میں تحدیث نعمت کے لیے لکھ رہا ہوں۔ یہ کتاب میرے پاس آج بھی محفوظ ہے۔ منیر خان نے کھا ”نیازی قبیلے کے ایک سردار محمد اجمل نیازی کے لیے۔“ نیچے ان کے دستخط موجود ہیں۔
میں نے سوچا کہ آج کل ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ”الہجویر“ ہے جو زندہ تر کتاب ہے۔ داتا ہجویری پر بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں مگر یہ کام داتا صاحب کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ڈاکٹر بخاری نے یہ کتاب داتا صاحب کی ”محبت“ میں بیٹھ کے لکھی ہے۔ داتا صاحب سے مکمل آشنائی اور صوفیانہ راز و نیاز سے پوری شناسائی کے بعد ایسی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اتنی ضخیم اور عظیم کتاب داتا دربار پر حاضری کو حضوری بنائے بغیر نہیں لکھی جا سکتی۔ داتا دربار کا لفظ ذوق و شوق کی انتہائی کیفیت میں مجھ سے لکھا گیا ہے۔ وگرنہ سارے دربار اس دربار کے سامنے ہیچ ہیں۔ دربار تو یہی ہے کہ لوگ ہر وقت یہاں حاضر رہتے ہیں 24 گھنٹے میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ یہاں آدمی نہ ہوں۔ مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہے۔ یہ لطیفہ نہیں ہے اصل واقعہ ہے کہ ایک پکے لہوری نے مکہ مکرمہ سے اپنی دوست کو خط لکھا میں خانہ کعبہ میں موجود ہوں۔ یہاں کچھ بیمار رہتا ہوں۔ داتا دربار جا کے میرے لیے دعا کرو کہ مجھے اللہ کی طرف سے شفا ملے۔ خانہ کعبہ اور داتا دربار میں موازنہ بھی گناہ ہے مگر اصل بات نسبت کی ہوتی ہے۔ داتا صاحب سے نسبت بھی انسان کو اللہ کے دربار میں کھڑا کرتی ہے۔